• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آبادی میں اضافہ، لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے، شہزاد رائے

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سماجی کارکن شہزاد رائےنے کہا ہے کہ عوام میں آبادی میں اضافے کی کوئی آگاہی نہیں، لہذا لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے،رہنما ن لیگ سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ ذرائع محدود ہیں آبادی بڑھے گی تو ہمیں وہی ذرائع شیئر کرنے ہیں جو دستیاب ہی، وہ جیو نیوز پر خصوصی پروگرام میں گفتگو کررہے تھے،اس موقع پر رہنما پیپلز پارٹی شرمیلا فاروقی، سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر اکرام الحق یاسین، نگراں وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر جمال ناصر اور ڈائریکٹر پروگرام پاپولیشن کونسل علی محمد میر نے بھی اظہار خیال کیا۔ سماجی کارکن شہزاد رائے نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام میں آبادی میں اضافے کی کوئی آگاہی نہیں ہے ۔ ہمیں لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آبادی براہ راست ماں اور بچے کی صحت اور گھر کی مینجمنٹ سے منسلک ہے۔ صوبوں کو آبادی کی تناسب کی بجائےہیومن ڈویلپمنٹ پر بجٹ ملنا چاہئے۔ملک میں بہت سارے جوڑے مانع حمل ذرائع کا استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس رسائی نہیں ہے۔ ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز اور این سی ایم اے کے ساتھ مل کر ایک تولیدی صحت کیلئے آن لائن آگاہی پروگرام ترتیب دیا ہے۔ شادی سے پہلے میاں بیوی کو یہ کورس کرنا ضروری ہونا چاہئے۔نادرا، وزارت اور تمام اداروں کے ذریعے اس پروگرام عملدرآمد ہوسکتا ہے۔ہم نے تجویز پیش کی کہ شادی شدہ جوڑوں کا نکاح نامہ اس وقت رجسٹر ہو جب وہ اس کورس کو مکمل کرلیں۔ جنہیں فیملی پلاننگ نہیں کرنی اُن تک یقینا پہنچنا بہت ضروری ہے لیکن جو کرنے کا سوچ رہے ہیں ہم اُن تک بھی نہیں پہنچ پار ہے ہیں۔کووڈ کی طرح کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔بہت سارے شادی شدہ جوڑے ایسے ہیں جو مانع حمل ادویات استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی پہنچ میں نہیں ہے۔ رہنما ن لیگ سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ ہمارے ذرائع محدود ہیں اگر آبادی بڑھ جائے گی تو ہمیں وہی ذرائع شیئر کرنے ہیں جو دستیاب ہیں۔ہم نے آبادی کے اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی تھی مگر بدقسمتی سے شرح پیدائش اب بھی بہت بلند ہے۔ رہنما پیپلز پارٹی ڈاکٹر شرمیلا فاروقی نے کہا کہ آبادی میں اضافہ ٹائم ٹیکنگ بم ہے ۔پاکستان میں جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اس کا بوجھ ہیلتھ سیکٹر،ایجوکیشن سیکٹراور انفرا اسٹریکچر پر پڑتا ہے معاشی ایشوز آجاتے ہیں۔ہمارے ہاں فیملی پلاننگ کے حوالے سے بات کرناکلچر ٹیبوز ہیں جن بیریئرز کو کراس کرنا آج بھی پاکستان میں بہت بڑا چیلنج ہے۔ سندھ واحد صوبہ ہے جس میں سندھ چائلڈ میرجز ایکٹ آیا اور نافذ ہوا ہے۔ہم ہر چیز کے اندر مذہب کو لے آتے ہیں برتھ کنٹرول کی کہیں بات کریں کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔فیملی پلاننگ کی بات کریں تو کہتے ہیں آپ قتل کررہے ہیں۔ سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر اکرام الحق یاسین نے کہا کہ 1984 ء میں پہلی دفعہ رپورٹ آئی تھی اس میں یہ تجویز کیا گیا تھاکہ فیملی پلاننگ کے ساتھ ساتھ بہبود آبادی کے ساتھ ساتھ ہم کوشش کریں۔ انفرادی طور پر میاں بیوی یا گھر والے اپنی ضروریات کو دیکھتے ہوئے، اپنی صحت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے بہبود آبادی کا انتظام کرسکتے ہیں۔ 2021ء میں صدر مملکت نے پھر سے اس مسئلے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ بات کی۔ ہم نے بہت سارے اسٹیک ہولڈرز کو جمع کیا ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام کو بلایا ہیلتھ منسٹری کے ڈی جی تشریف لے آئے۔ اس پر اچھی طرح بحث کی گئی اور تجاویز تیار کی گئیں ایک تجویز یہ دی گئی کہ ہم اس کا نام توازن آبادی رکھتے ہیں۔ کونسل اس نتیجے پر پہنچی کے اس کا جواز موجود ہے اور اس کے اچھے انتظامات کرلینے چاہئیں شریعت میں اس کی اجازت ہے کوئی حرج نہیں ہے۔ نگراں وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن رہا ہے۔ماحولیات کی جو ایک رپورٹ آئی ہے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیات سے متاثر ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہماری آباد ی کی شرح اس وقت2.5 فیصد ہے۔ پاکستانی خواتین کی شرح پیدائش ساڑھے تین کے قریب ہے جو ہم2030ء تک چاہتے ہیں کہ اس کو 2 بچوں تک محدود کرلیں۔ آبادی میں اضافہ ایک ایٹم بم ہے۔ جب پھٹے گا تو بیروزگاری بڑھے گی، جرائم بڑھیں گے اور ہم بہت برے حالات میں جائینگے۔ ڈائریکٹر پروگرام پاپولیشن کونسل علی محمد میر نے کہا کہ ہمارے ہاں سیاسی تسلسل، پالیسیاں اور پروگرامزکے تسلسل نہیں رہے۔ ہم نے1965ء میں اس پر کام شروع کیا مختلف حکومتیں آئیں مگر ان پروگراموں پر کام آگے نہیں لے جایا گیا۔ اگر ہم پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے بھی فیملی پلاننگ کی سروسز فراہم کریں تو رسائی میں بہتری آسکتی ہے۔ ڈاکٹر اکرام الحق نے خواتین کی شمولیت سے متعلق کہا کہ ممبران سے متعلق دستور میں درج ہے کہ اتنے علماء ہونے چاہئیں جو تقریباً ہر مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوں اتنے ججز ہونے چاہئیں اسی طرح خواتین سے متعلق بھی ہے کہ کم سے کم ایک خاتون ضرور ہو۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے رکاوٹ نہیں ہے جتنی خواتین وہ مقرر کرینگے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شرمیلا فاروقی نےکہا کہ ہمارے پاس جج خواتین موجود ہیں علماء کیٹیگری میں خواتین بھی موجود ہیں۔مرد حضرات یقینا بہت اچھا کام کر رہے ہوں گے لیکن بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے حل کیلئے خواتین بہتر طریقے سے کردار ادا کرسکتی ہیں ایک عورت کا نقطہ نظر لے کر آسکتی ہیں۔ علی محمد میر نے کہا کہ گیارہ ہزار مائیں ہر سال لقمہ اجل بن رہی ہیں جس میں سے پچیس فیصد کو بھی فیملی پلاننگ سروسز دے دی جائیں تو اُن کو بچایا جاسکتا ہے اور ضروری ہے بچوں میں مناسب وقفہ ہونا چاہئے۔
اہم خبریں سے مزید