اسلام آباد (رپورٹ:،رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینےکا اپنا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دیدی، عدالت نے کہا فوجی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کرسکتی ہیں تاہم حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا، انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلے تک 102گرفتار افراد کا ٹرائل حتمی فیصلہ نہیں کیا جائیگا، فیصلہ 5-1کی تناسب سے سنایا گیا، جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ ہمارے اعتراض کے باوجود کیس سن رہے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن و دیگر نے بھی جسٹس طارق مسعود پر اعتراض کیا، تاہم معزز جج نے بینچ سے علیحدگی سے انکار کردیا، جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے، جج کی مرضی بینچ سے الگ ہو نہ ہو،میں نہیں ہوتا کیا کرلینگے، وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ہر سویلین کا نہیں صرف انکا فوجی ٹرائل ہوگا جو قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ شاید متعدد بری ہوجائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ فوجی عدالت میں شفاف ٹرائل کو کیسے یقینی بنایا جائیگا؟ جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 6؍ رکنی لارجر بینچ نے بدھ کے روز فوجی عدالتوں میں سویلین ملزمان کے ٹرائل سے متعلق سابق چیئرمین پی ٹی آئی،عمران خان، جسٹس جواد ایس خواجہ اور اعتزاز احسن وغیرہ کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواستوں کے سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر کے فیصلے کیخلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر ابتدائی سماعت کی۔ فاضل وکیل نے کہا کہ ہمارا بینچ پر اعتراض ہے اور آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں جس پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ تو کیا کیس کو کھڑے ہو کر سنیں، سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ نے کہاکہ حکم امتناع مانگا جا رہا ہے، ہماراموقف سنے بغیر فیصلہ معطل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے جسٹس سردار طارق مسعودکو کہا کہ آپ اس کیس میں اپنی رائے دے چکے ہیں، آپکے کیس سننے سے ہمارے حقوق متاثر ہو رہے ہیں،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ابھی تو آپ کو نوٹس ہی نہیں ہوا ہے اور آپ لوگوں نے بولنا شروع کر دیاہے، اعتزاز احسن نے بھی جسٹس سردار طارق مسعود کو بینچ سے الگ ہونے کیلئے دائر درخواست پر پہلے فیصلہ کرنے کی استدعا کی توفاضل جج نے کہا کہ لائیں درخواست دو لفظوں میں فیصلہ کردیتے ہیں،جسٹس جواد کا اپنا فیصلہ ہے کہ بنچ سے علیحدگی کی درخواست پر جج کی مرضی ہے کہ کیس سنے یا الگ ہوجائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ متفرق درخواست ابھی تک عدالت کے سامنے نہیں ہے،وزارت دفاع کی جانب سے خواجہ حارث ایدوکیٹ نے انٹرا کورٹ اپیل پر دلائل دیناشروع کیے تو مخالف فریق کے وکلاء نے وزارت دفاع کی جانب سے پرائیوٹ وکیل کی خدمات لینے پر اعتراض کیا۔ دوران سماعت درخواست گزار،شہدا فورم کے وکیل شمائل بٹ نے موقف اختیار کیا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار دینے سے ملک کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کے ورثا ء کے حقو ق متاثر ہوئے ہیں، عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہوا ہے،جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تفصیلی فیصلے سے پہلے اس معاملہ میں عدالت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، خواجہ حارث نے کہا کہ صرف ان سویلین ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا جو قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، فوج کی تحویل میں104 افراد سات ماہ سے ہیں، ملزمان کیلئے مناسب ہوگا کہ انکا ٹرائل مکمل ہو جائے، تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا ہے تو عدالتی حکم معطل کرنا ہوگا، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ عدالت نے آرمی ایکٹ کی پوری شق کالعدم کی ہے، دیکھنا ہوگا ان نکات پر تفصیلی فیصلے میں کیا رائے دی گئی ہے۔ انہوںنے کہا کہ قانون کالعدم ہے تو عدالت ٹرائل جاری رکھنے کا حکم کیسے جاری کرسکتی ہے ؟اٹارنی جنرل نے کہا قانون کالعدم ہونے کی حد تک فیصلہ معطل کرنے کی استدعا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اتنی جلدی کیا ہے؟تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ جلدی یہ ہے کہ غیر ملکی دہشت گردوں کے ٹرائل بھی نہیں ہو پا رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ٹرائل جاری رکھنے سے104سویلین ملزمان میں سے وہ لوگ بری ہوجائینگے جن پر الزامات غلط ہیں اور جن کو ایک سال سے کم سزا ملتی ہے تو گرفتاری کی تاریخ سے سزا شمار ہونے کے قانون کا فائدہ لیکر رہا ہوجائینگے،جبکہ جن ملزمان کو زیادہ سزا ہوگی تو انکے معاملے میں عملدرآمد زیر غور اپیلوں کے فیصلے سے مشروط ہوگا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ گرفتار لوگ دہشت گرد ہیں تو بری کیوں کر رہے ہیں؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ لوگ تو اپنے ہی شہری ہیں، بس بھٹک گئے تھے، خواجہ حارث نے ایک بار پھر فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا فیصلہ خود سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بھی متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی لارجر بنچ نے قرار دیاہے کہ اگر سویلین کے جرم کا تعلق فوج سے متعلقہ ہو تو انکا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ فوجی عدالت میں شفاف ٹرائل کا تحفظ کیسے دیا جائیگا؟ جس پر خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ٹرائل اسپیشل قانون کے تحت ہوتا ہے لیکن رائج قوانین کا اطلا ق ہوتا ہے۔