پروفیسر خالد اقبال جیلانی
’’لباس ‘‘اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، یہ انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے جو پہلے ہی دن سے اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔لباس یا کپڑے دراصل ستر پوشی شرم و حیا اور موسم کی سختی و گرمی سے بچنے کے لئے ہوتے ہیں، مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ لوگ کپڑے ستر پوشی کے لئے کم اور فیشن کے لئے زیادہ پہنتے ہیں۔ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا۔ ایمان کی دولت عطا کی اور دین اسلام کی شکل میں بہترین طریقہ زندگی عطا کیا جو ہمیں جینے اور زندگی گزارنے کا سلیقہ و قرینہ سکھاتا ہے۔
یہ اسلام کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے سونے جاگنے ، کھانے پینے ، رہنے سہنے، ہسنے مسکرانے اور لوگوں سے میل جول رکھنے سے لےکر کپڑے پہننے تک کے آداب اور سلیقے سے آگاہ کیا تاکہ ہم ایک اچھے بہترین اور باحیا انسان کی صفات سے متصف ہو سکیں اور ہمارا ظاہر و باطن ایسا ہو کہ اس سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں ، یہی اسلام کی جامعیت ہے۔
ہر انسان کو ایسا لباس پہننا چاہیے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی کے ساتھ ساتھ موسم کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ نیز جس سے تہذیب نفس ، سلیقے و قرینے ، عزت و شرافت اور زینت و جمال کے ساتھ وقار انسانیت اور احترام آدمیت کا بھی اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے لباس جیسی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے اولادِ آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو چھپائے اور تمہارے لئے زینت و حفاظت کا ذریعہ ہو، (اور ایک وہ لباس نازل کیا)۔ جو زیب و زینت میں سب سے اچھا ہے اور وہ تقویٰ کا لباس ہے۔ (سورۃ الاعراف 26)
اس آیت مبارکہ میں ’’ریشا‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔ جس کا مطلب پرندوں کے جسم پر خوبصورت پر ہیں۔ پرندوں کے پَر دراصل اُن کے لئے حسن و جمال اور کشش کاذریعہ بھی ہیں اور جسم کی حفاظت کا بھی ۔ یہ پَر ہی ہوتے ہیں جو مختلف النوع پرندوں کو موسم کی سختی و شدت ، گرمی و سردی اور بارش سے بچاتے ہیں اور انہیں خوبصورت بناتے ہیں۔ چنانچہ آپ تجربے کے طور پر کسی حسین ترین رنگ برنگے پروں والے پرندے کو لیں اور اس کے جسم سے پَر نوچ کر پھینک دیں اور پھر اس حسین پرندے کے جسم کو دیکھیں آپ کا دل اس کی طرف دیکھنے سے کراہیت محسوس کرے گا۔
لباس سے مقاصدِ فطرت زیبائش و پوشش تو ہیں ہی لیکن لباس سے فطرت کی اصل غرض و غایت اور مقصد انسانی جسم کے قابلِ شرم حصوں کی خصوصی ستر پوشی اور پورے وجودانسانی کی عمومی تہذیب کرنا ہے۔ انسان کے خالق و مالک نے انسانی فطرت میں شرم و حیاکا مادہ ودیعت کیا ہے جو فطرت انسانی کی اصل ہے۔ اس کے ساتھ اسلام نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی بتادیا کہ حیا ایمان کا حصہ۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ کے بدن سے جنت کا لباس اُتر گیا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانپنے لگے۔
اس لئے یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ دراصل لباس کا سب سے اہم مقصد ستر پوشی ہے۔ البتہ ہر شخص اپنا لباس اپنے مزاج کے مطابق جائز کپڑوں اور مخصوص تراش خراش کے ساتھ بنواسکتا ہے۔ موسم اور علاقائی موسمی حالات کے مطابق بھی لباس کی تیاری درست ہے۔ زیب و زینت کا خیال رکھنا بھی غلط نہیں ہے ،مگر ستر پوشی کا ہر حال میں خیال رکھنا ضروری ہے۔ زمانے کے بدلتے فیشن اور سستے مذاق کے چکر میں پڑ کر ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے کہ دیکھنے والے غیرت منداور شریف لوگوں کو بُرا لگے ۔ یا لباس اس وضع کا بھی نہیں پہننا چاہیے کہ لوگ مذاق اڑائیں۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے انسان کے وقار میں اضافہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انگنت جاندار پیدا کئے ہیں۔ لیکن اس نے اپنے خاص کرم سے لباس کی نعمت سے صرف انسانوں کو نوازا ۔ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ لباس اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس لئے لباس کی ناقدری اور اس کا جوحقِ ستر پوشی ہے اسے کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ستر پوشی کے ساتھ ساتھ انسان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تقویٰ انسان کو اللہ سے قریب کرتا ہے۔
اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ سب سے بہترین لباس تقویٰ ہے۔ یعنی باطنی و روحانی پاکیزگی کا لباس جس میں ملبوس ہو کر روح مسکراتی ہے۔ اور ظاہری وجود شگفتہ اور پُر بہار نظر آتا ہے۔ لباس اور کپڑوں کے پہننے میں اس بات کا خیال رہے کہ ہم ایسے کپڑے پہنیں، اس وضع کا لباس اختیار کریں جو اللہ کے نیک بندوں نے اپنایا۔ جو شرافت کے مطابق ہو جس سے جھوٹی شان و شوکت اور تکبر کا اظہار نہ ہو اور نہ ایسا لباس پہننا چاہیئے جس سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے مشابہ نظر آئے۔
اپنی وضع ایسی رکھنی چاہیئے کہ جس کو دیکھ کر دیکھنے والے کو لگے کہ واقعی یہ ایک نیک خصلت ا ور دیندار انسان ہے۔ عورتوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ شریعت کی پابندی کو نظر انداز کرکے مردانہ لباس پہنیں اور نہ مردوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ عورتوں جیسے کپڑے اور لباس استعمال کریں۔ اس کے لئے احادیث و روایات میں شدید و عیدیں ہیں۔
لباس کے سلسلے میں شریعت نے جو اصول وضع کئے ہیں اُن کی تفصیل یہ ہے کہ ، (۱) لباس ستر پوش ہو عریاں اور فحش نہ ہو ، (۲) مرد عورتوں کا لباس نہ پہنیں اور عورتیں مردوں کی وضع قطع اختیار نہ کریں۔ (۳) مرد خالص ریشم کا لباس نہ پہنیں (کہ اس سے اس میں تن آسانی اور آرام طلبی پیدا ہوتی ہے)۔ (۴) لباس میں اسراف نہ کیا جائے یعنی لباس صاحب لباس کے بجٹ کی حدود میں ہو قرض لیکر یا اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس پر خرچ نہ کیا جائے۔ (۵) ایسا لباس نہ پہنا جائے جو کسی قوم کا مذہبی شعار ہو۔ علمائےکرام اور فقہائے عظام نے مسئلہ لباس پر جو کچھ لکھا ہے اس کا نچوڑ یہی پانچ اصول ہیں۔
اسلام میں ستر پوشی اور لباس کی اہمیت کے موضوع کی اس طویل تمہید کا مقصد انتخاب لباس کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں رواج پاتے اور دن بدن عام ہوتی ایک بدتہذیبی کی طرف توجہ لانا مقصود ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں آجکل دن رات، ہر وقت ہر جگہ کیا گھر ، کیا گلی محلے، کیا سڑک بازار اس بدتہذیبی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اور معاشرے میں کسی بھی حلقہ کی جانب سے اس کی اصلاح کی کسی بھی قسم کی اور کوئی بھی کوشش یا سوچ اور تشویش نہیں پائی جاتی۔
آج کل ہمارے نوجوانوں میں ایک لباس بہت زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے اور وہ نیکر یا شارٹ ہے۔ شروع شروع میں جب یہ معاشرے میں متعارف ہوا تھا تو یہ پنڈلیوں سے اوپر اور گھٹنوں سے خاصا نیچے ہوا کرتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ کم ہو کر گھنٹوں سے بھی اوپر چلا گیاہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ شریعت کے مطابق سترِ عورت سے مراد انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جس کا ظاہرکرنا شرعاً حرام ہے، مرد کے لئے ناف سے لے کر گھٹنے تک چُھپانا فرض ہے (گھٹنا بھی سترعورت ہے یعنی اس کا چھپانا بھی فرض ہے۔) اور خواتین کے لئے منہ، ہاتھ اور دونوں قدموں کے سوا سارے بدن کا چھپانا فرض ہے۔ ستر عورت کا مطلب ہے جسم کے ان حصوں کو چھپانا جن کا چھپانا فرض ہے۔
اب ہمارے نوجوان گھٹنوں سے اوپر جو شارٹ یا نیکر پہن کر گھروں میں، گلی محلے بازاروں میں سرِ عام دھڑلے سے بے محاباگھوم پھر رہے ہیں اولاً تویہ قطعا حرام ہے اور بے حیائی و برہنگی ہے۔ ستر کھلا ہونے کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ آپ ازروئے شریعت اللہ و رسول اللہ ﷺ کی نظر میں برہنہ ہیں۔ ثانیاً یہ کہ ہم یہ گھٹنوں سے اونچے شارٹ یا نیکر پہن کر گھروں میں اپنے گھر کی عزت مآب خواتین جن میں ماں ، بہن ،بیوی، بیٹی اور دیگر رشتہ دار خواتین کے سامنے برہنگی کی حالت میں بے نیازانہ چل پھر رہے ہیں۔
یہی حال گھر سے باہر نکلتے وقت ہے کہ ہمارے نوجوان یہی شارٹ یا نیکر پہن کر موٹر سائیکل پر اپنے گھر کی انہی خواتین کو بٹھا کر شارع عام پر مارکیٹوں ، شاپنگ سنٹروں میں بے حیائی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں اور ہماری اس بے ستری اور برہنگی کو ہماری ماں ، بہن ، بیٹی کے ساتھ ان پبلک مقامات پرموجود دیگر نا محرم خواتین بھی دیکھ رہی ہیں۔
ہمارے نوجوانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ ان کا یہ عمل صرف بے حیائی ہی نہیں بلکہ صریحاً حرام اورگناہ کبیرہ ہے۔ انہیں اس لباس سے سخت ترین احتناب برتنا چاہئے ۔ تیسری اہم بات یہ کہ ہمارے نوجوان بعض ایسے واہیات ٹراؤزر یا جینز کی پینٹس جن کے پائنچے صرف ٹخنوں بلکہ پنڈلیوں سے اوپر گھٹنے تک ہوتے ہیں ہر چند کہ یہ ستر سے نیچے ہوتے ہیں اور اس میں ستر چھپا ہوتا ہے۔ مسجد میں نماز پڑھنے آجاتے ہیں۔
یاد رکھیئے ان ٹراؤزر کا گھٹنے یا ستر سے نیچا ہوتا ہے ایک الگ مسئلہ ہے لیکن یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے کہ ہر وہ لباس جسے پہن کر آپ کسی اعلیٰ تقریب ، دعوت ، دفتر میں اپنے باس کے سامنے ، کسی اعلیٰ سرکاری افسر، عہدے دار، کمشنر ، گور نر ہاوس، ایوانِ صدر جانا پسند نہیں کرتے بلکہ اسے مذکورہ بالا تمام اعلیٰ مقامات پر پہن کر جانا انتہائی معبوب، بدتہذیبی بلکہ گنوارین شمار کیا جاتا ہو، ایسے لباس یا ٹراؤزر، آدھے پاجامے کو پہن کر آپ اللہ کے دربار مسجد میں نماز کے لئے اللہ کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے کیوں کہ اللہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ سےزیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے سامنے تہذیب و شائستگی سے کھڑا ہوا جائے۔ لہٰذا ایسے لباس میں نماز ہوتی ہی نہیں چاہے مسجد میں پڑھیں یا گھر پر۔
اللہ ہمارے نوجوانوں کو دین کو درست انداز میں سمجھنے ، سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق و ہدایت عطا فرمائے۔ اور ہمارے معاشرے کو بدتہذیبی اور فیشن کے نام پر بے حیائی سے اپنی پناہ عطا فرمائے۔