محمد ابراہیم
کسی بھی معاشرے کی ترقی و ترویج میں نو جوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ کسی قوم کے مستقبل کے روشن یا تاریک ہونے کا دارو مدار بہت حد تک اس کے نوجوانوں کے رویے اور طرزِ حیات پر ہوتا ہے۔ قوموں کی بقا کی خاطر بڑ ی سے بڑ ی قربانی بھی ہمیشہ سےنوجوان ہی دیتے آ رہے ہیں۔
قوم کے بڑ ے اور پچھلی نسل اگر اپنے نوجوانوں کی تربیت کرنے ، ان کی اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کرنے ، اپنے قومی نظریات اور اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرنے والے مقاصد و اہداف ان تک منتقل کرنے سے غافل ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس قوم کا مستقبل ڈوبنے لگا ہے۔ مایوسی یا حالات کی تنگ دستی جب کسی معاشرے کا دامن پکڑ لیتی ہے تو ایسے دور میں کسی معجزے یا کرشمہ قدرت کا انتظار کرنے کے بجائے ہر کسی کی توجہ اور توقع نوجوانوں پر مرکوز ہوجاتی ہے۔
نوجوان کتنے ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائیں ان کی سمت کا تعین کرنے میں ان کے بڑوں کا ہی کردار ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال جدوجہد تحریک پاکستان کے موقع پر ملتی ہے جب خواجہ ناظم الدین نے اپنے بیٹے کو خط لکھا جو علیگڑھ میں پڑھتا تھا اور کہا،’’تم کو چاہیے کہ تحریک ِ پاکستان کے کام میں کوئی غفلت نہ ہو ، تم تو اگلے سال بھی امتحان میں بیٹھ سکتے ہو، مگر قوم کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آتا‘‘۔
قائداعظم محمد علی جناح نے جہاں قوم کی بقاء کے لیے اس میں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم جیسی خوبیوں کا ہونا لازمی قرار دیا تو دوسری جانب اس بات کا بھی یقین دلایا کہ کسی بھی ملک کے قیام امن میں جو کردار نوجوان نسل ادا کرسکتی ہے وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آسکتا۔
ان پہلوؤں سے اگر ہم اپنی قوم اور اس کے نوجوانوں کا جائزہ لیں ۔ اپنے تعلیمی نظام اور اس کے مقاصد و اہداف کا تجزیہ کریں اور اپنے دانش وروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاسی ناخداؤں کے افکار و خیالات اور کارناموں پر ناقدانہ نظر ڈالیں ، تو انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ تا ہے کہ مستقبل کے ان معماروں کی کوئی قدر ہی نہیں دکھائی دیتی۔ ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کا کوئی اچھا انتظام کرنے کی کبھی کوئی مجاہدانہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔
اپنے نظریات اور قومی اہداف سے انہیں روشناس کرانا اور ان کے ساتھ ان کے اندر وفاداری اور لگاؤ پیدا کرنا کبھی پیشِ نظر ہی نہیں رہا، لہٰذا اسی غفلت و کوتاہی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان ادنی مقاصد و مفادات کے غلام و حریص بن کر جی رہے ہیں۔ انہیں قوم کے مستقبل اور اس کی عزت و سربلندی سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ اپنے ورثے اور اور اپنی تہذیبی خصوصیات سے انہیں کوئی لگاؤ نہیں رہا۔
وہ اپنے قومی نظریات سے ناآشنا اور اس کے اہداف و مقاصد سے بالکل نابلد ہیں۔ ان کے اندر اپنے معاشرے اور قوم کی فلاح و بہبود اور استحکام و خوشحالی کے لیے قربانی دینے کا کوئی جذبہ پایا ہی نہیں جاتا۔ ان کے سامنے تو بس اپنی زندگی، اپنا کیرئیر اور اپنی فیملی کے لیے اچھے لائف اسٹائل کا حصول ہی بنیادی ٹارگٹ ہے۔ وہ تو بس مادی آسائشات و لذات کو زیادہ سے زیادہ سمیٹ لینا اور زندگی کی رونقوں اور راحتوں کو زیادہ سے زیادہ پالینا چاہتے ہیں۔
معاشرے کے مسائل، قوم کی مشکلات اور اپنے ہم وطنوں کے مصائب و آلام سے انہیں کوئی سروکار نہیں، ایسےمیں ان سےکسی مشکل گھڑ ی میں قوم کے لیے سرفروشی دکھانے اور جان و مال کی قربانی دینے کی توقع آخر کس طرح رکھ سکتے ہیں۔ کہاں کمی اور کوتاہی ہو رہی ہے؟ کیا اس میں ہماری حکومت کی ناقص پالیسیوں کا دخل ہے یا پھر والدین کی غیر ذمہ داری کا قصور ؟ دور حاضر میں نوجوانوں میں خوبیاں بھی ہیں لیکن ترازو کے دونوں پلڑے برابر نظر نہیں آتے۔ ریاستی ڈھانچے کو بھی نئی نسل کی کچھ خاص پروا نہیں اور والدین بھی بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ان کی الجھنوں کے بارے میں نہیں سوچا جارہا، اگر کچھ ہو بھی رہا ہے تو محض سرسری طور پر‘ اوپری سطح پر۔
اب بھی وقت ہے کہ نوجوانوں کی اہمیت اور قدر پہچانیں، انہیں اعلیٰ تعلیم، اخلاقی تربیت اور ملک و ملت کی ترقی و بہبود و استحکام کے اہداف کا پاسبان بنانے کی کوشش و جستجو کریں۔ جب ہی عروج و ترقی کا سفر شروع ہوسکتا ہے کیوں کہ نئی نسل کو راہ نمائی بھی درکار ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ ذہنی طور پر انہیں توانا رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اُن کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ کچھ کرنے کے معقول مواقع فراہم کیے جائیں۔