• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مسلمہ حقیقت ہے اور دنیا بھی تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان خوبصورت اور قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے مالا مال اور اس لحاظ بھی خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے افرادی قوت کی شکل میں نوجوان نسل کاقیمتی اثاثہ دیا ہے۔ معاشرے کی ذہنی نشونما اور فکری ارتقا کا دارومدار نوجوانوں پر ہی ہوتا ہے۔لیکن آج نوجوان نسل اپنے مستقبل کے حوالے سے خاصا پریشان اور مایوس ہے، کیونکہ اپنے ہی ملک میں انہیں آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے سہولتوں سے زیادہ مسائل اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ 

اسے معاشرے میں جھوٹ، بدامنی، ، فریب، دو نمبری اور دھوکے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ان سب چیزوں سے تنگ آکر وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلا جاتا ہے اور اپنی صلاحیتیں دوسرے ممالک میں استعمال کرتا اوران کی ترقی میں حصہ دار ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں60 فی صد سے زائد نوجوان ہیں، جسے یہاں کا نظام کچھ مثبت کام کرنے نہیں دیتا، انہیں نہ شعور و آگہی دیتا ہے اور نہ ملک کی بہتری کے لیے سوچنے۔ 

گزشتہ دہائی سے معیشت کی تنزلی کی وجہ سے جو مسائل جن میں معاشی، اقتصادی اور سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ لاقانونیت کی وجہ سے ہر فراد شدید ذہنی اذہیت کا شکار ہے۔ خاص کر نوجوان طبقے پر اس کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔

زیادہ تر اپنے ملک سے فرار چاہتے ہیں ۔ ہزاروں نوجوان اس ملک کو خیر باد کہہ چکے ہیں جو ایک المیہ اور ہماری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ماضی میں لوگ تعلیم، سیاست، ثقافت، بزنس او ردیگر امور کے لئے باہر جاتے تھے، جن میں دس فیصد باہر ملازمت کی غرض سے مستقل بنیادوں پر گرین کارڈ کے لیے سکونت اختیار کرتے تھے لیکن موجودہ صورتحال میں یہ حیرت انگیز اضافہ ملک کی افرادی قوت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

کوئی بھی اپنی سرزمین نہیں چھوڑنا چاہتا لیکن ملکی حالات نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔ گلی، محلہ ،شہر کا کوئی کوچہ محفوظ نہیں۔ گھر سے باہر اسکول، کالج، آفس کے لئے نکلنے والوں کے نہ صرف موبائل، نقدی چھین لی جاتی بلکہ جان بھی لے لیتے ہیں۔ کتنے نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور کتنے اپاہچ یا معذور ہو کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ 

پرائیویٹ سیکٹرز میں ملازمین کو محدود کیا جا رہا ہے، اسی لیے شہر میں ورداتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لاقانونیت کے واقعات سرعام ہو رہے، ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ دل برداشتہ ہو کر دور جا کر روزگار کے مواقع حاصل کر رہا ہے۔ جب صبر اور برداشت ختم ہو جائے تو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ یاد رکھیں راہ فرار اختیار کرنا آسان اور ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہوتا ہے۔

معاشی، اقتصادی، سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ لاقانونیت کے باوجود ہمارے ارض پاک میں ایسے بہادر، نڈر اور باہمت نوجوان ہیں جوا پنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ان تمام مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی تگ و دو کر رہےہیں۔ انہیں یقین ہے کہ قائد اعظم کے افکار اوراقبال کی خودی کو سامنے رکھتے ہوئے وہ کامیابی حاصل کر لیں گے۔پریشانیاں اور قربانیاں برداشت کر کے ہی وطن کو ترقی کی منزل کی طرف گامزن کیا جاسکتا ہے۔

ان کی سوچ کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کی رفتار تیز کر نے کے لیے زرعی، صنعتی شعبوں میں ایسے ہنر مند اور قابل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں آگے لائیں جو اپنے اور ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور ان تمام نامساعد حالات کے باوجود راہِ فرار اختیار نہیں کی۔ اس سلسلے میں فوری طور پر اعلیٰ سطح پر معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ملک میں امن و امان کی فضا قائم کی جائے، لوٹ مار کرنے والے اور مختلف ورادتوں میں مطلوب افراد گروہ اور مافیاء کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ 

آسودہ اور پر سکون ماحول ہوگا، تب ہی نوجوان یکسوئی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو سامنے لاسکیں گے اور غیر ممالک میں موجود نوجوان بھی جب اپنے وطن میں اچھے حا لات دیکھیں گے تو وہ بھی اپنے ملک و قوم کی ترقی میں حصہ ڈالنےکے لئے دوبارہ اپنی سرزمین کو ترجیح دیں گے، تاکہ پاکستان بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کی جانب اپنا سفر بہترین انداز سے شروع کر سکے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو ضائع نہ کریں اور ان کے لیے راستے استوار کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں ان کےخیالات اور مشوروں سے مستفید ہوں ان کو مواقع فراہم کریں کچھ بعید نہیں کہ ہمارا ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔ آج بھی وہ قابلیت موجود ہے جو اس ملک کو صف اول کہ ممالک میں لا کھڑا کرئے۔