• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا پھر نوجوان کرکٹرز کو ایک ٹورنامنٹ کے بعد سسٹم سے غائب کردیا جائے گا؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ایک اور آزمائش آسٹریلیا میں شروع ہوچکی ہے ۔نئے کپتان اور نئی انتظامیہ کے ساتھ دنیا کی صف اول کی ٹیم کے خلاف کارکردگی دکھانا واقعی پاکستانی کرکٹرز کے لئے چیلنج ہوگا۔چند ہفتے پہلے وہ ٹیم جس نے بھارت کو اس کی سرزمین پر شکست دے کر ورلڈ کپ جیتا۔اس ٹیم کو اس کے گراونڈز پر ہرانا پاکستانی ٹیم کی بڑی آزمائش ہے۔ تین ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز بینو قادر ٹرافی کے لیے کھیلی جارہی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے کے بعد اس وقت آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست ہے۔ پاکستان ا س وقت آئی سی سی کی ٹیسٹ عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن آسٹریلیا بھی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں اپنی دوسری سیریز کھیلے گا۔ انگلینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ جیتنے دو ہارنے اور ایک ٹیسٹ میچ ڈرا کرنے کے بعد آسٹریلیا پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے آخری مرتبہ 20-2019 میں آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی جس میں اسے دو صفر سے شکست ہوئی تھی۔

دونوں ٹیموں کے درمیان آخری ٹیسٹ سیریز مارچ 2022 میں پاکستان میں کھیلی گئی ۔ تین میچوں کی وہ ٹیسٹ سیریز آسٹریلیا نے ایک صفر سے اپنے نام کی تھی۔ موجودہ ٹیسٹ سیریز میں قیادت شان مسعود کررہے ہیں جو پاکستان کے 35 ویں ٹیسٹ کپتان بن گئے ہیں۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ بابر اعظم کے لیے سنگ میل ثابت ہوا۔ انہوں نے پاکستان کے لیے اپنا 50 واں ٹیسٹ میچ پرتھ میں کھیلا ہے۔ آئی سی سی ٹیسٹ بیٹنگ رینکنگ میں بابر اعظم چوتھے نمبر پر ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی ٹیسٹ بولرز کی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر ہیں۔

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں سعود شکیل اور عبداللہ شفیق بالترتیب 295 اور 228 رنز کے ساتھ پاکستان کے دو سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ سلمان علی آغا نے 221 رنز بنائے ہیں اور 3 وکٹیں حاصل کی ہیں جبکہ شاہین شاہ آفریدی نے چھ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ آسٹریلیا کے موجودہ دورے میں پاکستان ٹیم نے کینبرا میں پرائم منسٹر الیون کے خلاف چار روزہ میچ کھیلا ہے جو ڈرا ہوگیا اس میچ میں کپتان شان مسعود نے ڈبل سنچری اسکور کی۔شان مسعود ،بابر اعظم ، سعود شکیل اور دیگر کھلاڑیوں کو اس سیریز میں اچھی کارکردگی دکھانا ہوگی۔

شان مسعود جونیئر لیول پر پاکستان اور پھر کاونٹی کی کپتانی کرچکے ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعو کا پہلا امتحان آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہے۔اسی دوران پاکستان نےفاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو محمد رضوان کی جگہ ٹیسٹ ٹیم کا نائب کپتان مقرر کیا ہے۔ اس سے قبل شاہین شاہ کو ورلڈ کپ کی تباہ کن کارکردگی کے بعد بابر اعظم کی جگہ ٹی ٹوئینٹی کا کپتان مقرر کیا گیا تھا۔ 

شاہین نے 27 ٹیسٹ، 53 ون ڈے اور 52 ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔سرفراز احمد کی موجودگی میں محمد رضوان پرتھ ٹیسٹ کی الیون کا حصہ نہیں تھے۔ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔کپتان،نائب کپتان اور ٹیم انتظامیہ میں تبدیلی کردی گئی ہے۔ اگر ان فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوتا ہے تو بہت اچھی چیز ہے۔لیکن پاکستان کرکٹ میں ایک روایات چلی آرہی ہے کہ بورڈ کے سربراہ تبدیل ہوتے ہی ماضی کے فیصلے بدل جاتے ہیں۔

ورلڈ کپ کے دوران یہی بحث چلتی رہی کہ بابر اعظم کپتانی کو بوجھ نہیں اٹھا سکے ہیں اس لئے ان کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ اب جبکہ بابر اعظم کپتانی کے بوجھ سے نکل چکے ہیں انہیں آسٹریلیا کے خلاف اپنے مقام اور مرتبے کے مطابق کھیلنا چا ہئے۔ ٹیسٹ سیریز کا نتیجہ کچھ بھی ہو بابر اعظم کی ایک دو بڑی اننگز انہیں عظیم تر بناسکتی ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے اس کا پتہ حال ہی میں ایمرجنگ ایشیا کپ اور انڈر19ایشیا کپ میں دکھائی دے رہا ہے جب ہم نئے کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھ رہے ہیں۔

اذان اویس،سعد بیگ، شاہ زیب اور ذیشان جیسے نوجوان پاکستان کرکٹ کا مستقبل دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت کے خلاف میچ پاکستان نے 8وکٹ سے جیتا۔آذان اویس نے 10 چوکوں کی مدد سے 105 رنز بنائے جبکہ سعد بیگ نے جارحانہ انداز میں 51 گیندوں میں 68 رنز بنائے جس میں آٹھ چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔پی سی بی نے انڈر19کرکٹ ٹیم کا ہیڈ کوچ ماضی کے عظیم بیٹسمین محمد یوسف کو بنایا ہے۔

عام طور پر بڑے کھلاڑی پاکستان کی جونیئر ٹیموں کے ساتھ کام کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن پہلی بار سابق کپتان محمد یوسف کو ہیڈ کوچ بنایا گیا ہے۔محمد یوسف لیول تھری کورس کا امتحان دے چکے ہیں۔ بھارت میں راہول ڈریوڈ کے بعد محمد یوسف جیسے عظیم کھلاڑی کو جونیئر ٹیم کی باگ دوڑ دی گئی ہے۔ امید یہی ہے کہ پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی دکھائے گی اور نوجوان کرکٹرز ایک ٹورنامنٹ کے بعد سسٹم سے غائب نہیں ہوجائیں گے۔ محمد یوسف اور محمد حفیظ کو اپنی اننگز کھیلنے کا پورا موقع ملنا چاہیے کیوں کہ کوئی بھی راتوں رات تبدیلی نہیں لاسکتا۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید