اسلام آباد( رپورٹ،رانامسعود حسین)سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کو جائز قانون قرار دینے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے ،جس میں اس ایکٹ کو آئین سے مکمل ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ عدلیہ کو نیچا نہیں دکھایا گیا، انصاف تک رسائی میں آسانی ہوئی، ایک قانون سے عدلیہ کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہوئی ہے،تفصیلی اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ نے سپریم کورٹ کو نیچا نہیں دکھایاہے ، آئین نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کا ضابطہ کار بنانے کا اختیار دے رکھا ہے،آرٹیکل191مقننہ کو سپریم کورٹ کا پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کا اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ کے بنائے گئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کسی طور بھی آئینی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے،پارلیمنٹ کے بنے اس قانون سے بنیادی حقو ق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی بلکہ یہ بنیادی حقوق کے نفاذ کی سہولت فراہم کرتا ہے ، ایکٹ نے آرٹیکل 184/3کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متاثرہ فریق کو اپیل کاحق دیاہے، اسلامی احکامات اور پوری دنیا میں رائج طریقہ کار کے مطابق متاثرہ فریق کو اپیل کا حق حاصل ہوتا ہے جبکہ کسی معاملے کے اگر دو ممکنہ تشریحات ہوں تو پھر جس تشریح کی توثیق اسلامی احکامات سے ہو تو اسے فوقیت حاصل ہوگی،آئین کا آرٹیکل 175(2)اپیل کا حق دیتا ہے اور زیر غور معاملے میں لارجر بینچ کو اپیل سننے کا اختیار دیا گیا ہے جو بالکل آئین کے مطابق ہے اور اس سے آئین کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔