2023کی ایک بُری خبر تو یہ ہے کہ کاغذاور طباعتی سامان اتنا گراں ہوچکا ہے کہ اب پاکستان میں کتاب اور رسالہ چھاپنا اور بیچنا کارے دارد ہے۔کتابوں کی تعداد ِ اشاعت بھی گھٹ کر چند سو (بعض صورتوں میں دو ڈھائی سو) رہ گئی ہے۔ حالانکہ تیس چالیس سال پہلے تک بھی کتاب گیارہ سو اور ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی تھی۔
کتاب کی مقبولیت میں کمی کی ایک وجہ برقیاتی ذرائع ابلاغ کا ذہنوں پر چھاجانا اور ان کے ذریعے کتابوں اور رسالوں کی(پی ڈی ایف کی شکل میں) مفت ترسیل بھی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان برقیاتی کھلونوں کے معاملے میں مغرب ہم سے برسوں آگے ہے لیکن وہاں اب بھی کتاب بڑی تعداد میں چھاپی اور پڑھی جاتی ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ بعض لکھنے والے اسی طرح لگن سے اپنے کام میں مصروف رہے ، بعض باہمت ناشرین کتابیں شائع کرتے رہے اور باذوق قارئین کسی نہ کسی طرح انھیں خریدتے بھی رہے۔ کتاب میلوں میں بڑی تعداد میں شائقینِ علم و ادب شریک ہوئے۔ کراچی اور لاہو ر کے کتب میلوں میں حسب ِ سابق ہجوم رہا۔
گراں ہونے کے باوجودان میلوں میں کتابیں بڑی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ادبی میلوں اور کانفرنسوں میں بھی بہت رونق رہی۔کراچی آرٹس کونسل کی سولھویں اردو کانفرنس میں لوگوں کا ہجوم قابلِ دید تھا اور اس کانفرنس میں بھی کتابوں کے اسٹال لگے اور کتابوں کی تقریباتِ اجرابھی منعقد ہوئیں۔
تو آئیے سال دو ہزار تیئیس میں شائع ہونے والی اردو کی نثری کتابوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
٭…فکشن
مقبول ڈراما نگار اور فکشن نگار اصغر ندیم سید کا ناول’ جہاں آباد کی گلیاں‘ لاہور سے شائع ہوا۔ اصغر ندیم سید ہمارے ان سینئر لکھنے والوں میں شامل ہیں جو مسلسل لکھ رہے ہیں اور ان کی تحریر میں تھکن اور کہولت کے بھی کوئی آثار نہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں انھوں نے بعض بہت عمدہ خاکے بھی لکھے ہیں۔ اختر رضا سلیمی کا نیا ناول’ لواخ ‘شائع ہوا۔ سلیمی کے دو ناول پہلے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
تین شعری مجموعے ان کے علاوہ ہیں۔ ناول کا نام لَواخ دراصل روشنی یا چمک کے معنی میں کوہ مری کی مقامی زبان میں مستعمل ہے۔ یہ کہانی بھی اس جنگ ِآزادی کی ہے جو مری کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء میں لڑی تھی۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ جب کوئی بڑی مشکل پیش آتی مثلاً جنگ تو آگ کا بڑا الاو روشن کیا جاتا جس کی چمک اور روشنی سے دور دراز کے لوگوں کو خطرے کا اندازہ ہوجاتا۔ نینا عادل کا ناول’ مقدس گناہ‘ سنگ میل نے شائع کیا۔
مبین مرزا کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ’ احوال و آثار‘ شائع ہوا اور بعض لوگوں کو اس کے نام سے مغالطہ ہوا کہ یہ یادداشتوں یا شخصیت نگاری کا کوئی سلسلہ ہے۔ آغا گل کے افسانوں کا مجموعہ ’رانی ‘کوئٹہ سے شائع ہوا۔ آغا گل کے افسانے بلوچستان کے جغرافیائی پس منظر اور ایک خاص ثقافتی حالات میں تخلیق کیے گئے ہیں اور بسا اوقات وہ ایسی تلخ مقامی و سیاسی حقیقتیں بھی پیش کردیتے ہیں جن سے بقیہ پاکستان لاعلم ہے۔ نجیبہ عارف کے افسانوں کا مجموعہ’ میٹھے نلکے ‘منظر ِ عام پر آیا۔
داستانوں کا فکشن میں اہم حصہ ہے اور پاکستانی زبانوں کی لوک داستانوں پر اسی خیال سے ادارۂ فروغ ِ قومی زبان نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ اس سلسلے میں بلتی کی لوک داستانوں پر محمد حسن حسرت کی کتاب اور پنجابی کی لوک داستانوں پر حمید اللہ ہاشمی کی کتاب شائع ہوگئی ہے۔ اس سیریز کی دیگر کتابوں پر کام جاری ہے۔
٭…تنقید و تحقیق
تحقیق کے ضمن میں سال ہائے گذشتہ کی طرح خاصا کام ہوا ۔ ہندوستان کے بعض اہل قلم کی کتابیں بھی پاکستان سے شائع ہوتی ہیں اور اس سال امریکا میں مقیم معروف محقق سی ایم نعیم کی کتاب’ منتخب مضامین ‘ کے عنوان سے آج کی کتابیں (کراچی) نے شائع کی۔ یہ سی ایم نعیم کے تحقیقی و تنقیدی مقالات و مضامین کی پہلی جلد ہے۔ وہ امریکا میں طویل عرصے تک اردو کی تدریس سے وابستہ رہے ہیں ۔ بعض مقالات میں ہماری تہذیب اور تاریخ کے تناظر میں اردو ادب کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ادبی تحقیق و تنقید کی یہ وہ روایت ہے جس کو اردو ادب کے مغربی ماہرین نے تو خوب پروان چڑھایا مگر افسوس کہ ہمارے عصر ِ حاضر کے نوجوان محقق اور نقاد اپنے تہذیبی اور تاریخی تناظر کی طرف سے آنکھیں بند کرکے تحقیق و تنقید کے نام پر محض کاغذی گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ نوجوان لکھنے والوں کو نعیم صاحب کے یہ مضامین غور سے پڑھنے چاہییں۔ ان میں ادبی مسائل و موضوعات پر عمیق انداز میں اور حوالوں کے ساتھ مباحث شامل ہیں۔ بصیرہ عنبریں کی کتاب ’مضامینِ نو‘میں ان کے نئے تحقیقی مقالات و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔
اس میں ڈاکٹر صاحبہ کے دس مقالات ہیں جن میں اردو اور فارسی شاعری کے موضوعات اور شعرا پر اظہار ِ خیال کیا گیا ہے۔ عقیل عباس جعفری نے بڑی محنت سے ان کتابوں کا سراغ لگایا جن پر یا تو پابندی لگادی گئی یا ان کے ناشرین اور مصنفین کو بوجوہ مختلف قسم کی سزائوں یا پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔جعفری صاحب نے ان کتابوں سے متعلق اہم معلومات حوالوں کے ساتھ پیش کی ہیں اور یہ کام’ معتوب کتابیں ‘کے عنوان سے ورثہ پبلی ییشنز نے کراچی سے شائع کیا۔
سہیل عباس بلوچ کی کتابیات کے ضمن میں تین کتابیں شائع ہوئیں : ’شروح ِ غالب(کتابیات)‘، ’شبلی نعمانی (کتابیات )‘اور’ قاضی عبدالودود (کتابیات )‘۔ تینوں کتابیں ادارۂ فروغ ِ قومی زبان(سابقہ مقتدرہ قومی زبان) نے شائع کیں (اگرچہ ان پر سال ۲۰۲۲ء درج ہے لیکن یہ ۲۰۲۳ء میں چھپیں)۔کتابیات ان بنیادی تحقیقی کاموں میں شامل ہے جو اِس ادارے کو کرنے تھے اور جن کی ابتدا وحید قریشی اور دیگر سربراہان نے کی تھی۔
معروف محقق اور کتاب شناس رفاقت علی شاہد کی مرتبہ کتاب’ تحقیق شناسی ‘کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اس میں فن ِ تحقیق و تدوین سے متعلق اہم مقالات شامل ہیں۔ تحقیق کے طلبہ کے لیے مفید ہے اور بعض اساتذہ بھی اس سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس کتاب کا نیاایڈیشن اس بات کا ثبوت ہے کہ کتاب اچھی ہوتو اب بھی اس کے خریدار اور پرستار بہت ہیں۔
تنقید کو دیکھیں تو اس سال شائع ہونے والی تنقید کی نئی کتابوں میں یاسمین حمید کی کتاب ’ایک اور رخ‘ اس لحاظ سے الگ ہے کہ اس میں مصنفہ نے پرانی اورلگی بندھی آرا سے ہٹ کر خود اپنے طور پر ادبی شہ پاروں پر نئے رخ سے نظر ڈالی ہے ، بعض سماجی و ادبی رجحانات پر اختلافی رائے بھی دی ہے اور سوال بھی اٹھائے ہیں مثلاً یہ کہ کیا مقبول شاعری اور اچھی شاعری الگ ہوتی ہے اور کیا شاعر کو مشاعروں میں مقبولیت کے خیال سے عوامی ذوق کے مطابق شاعری کرنی چاہیے؟ اشفاق احمد ورک نے ’اردو مزاح کی تاریخ ‘کے عنوان سے اردو کے نمایاں مزاح نگاروں کا ذکر کیا ہے۔ اس میں اردو مزاح کی تاریخ، نثری اور شعری مزاح کا جائزہ مختلف اصناف کے ذکر کے ساتھ لیا گیا ہے۔قیصر عالم کی سنگ ِ میل کی شائع کردہ کتاب’ محمد حسن عسکری کا تصور ِ انسان اور آدمی‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ عسکری صاحب کے اثرات اردو ادب اور تنقید پر دیرپا اور گہرے ہیں۔
’تہذیب ِ سخن ‘کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں احمد جاوید نے افتخار عارف کی شاعری کی روحانی جہات پر بات کی ہے۔ابرار عبدالسلام کی کتاب’ نعتیہ ادب: مسائل ومباحث‘ شائع ہوئی۔
٭…شخصیات اور مصاحبے
ادارہ ٔ فروغ ِ قومی زبان (سابقہ مقتدرہ قومی زبان ) نے پاکستان کے نامور اساتذہ پر ایک کتاب ’روشنی کے سفیر ‘کے عنوان سے چند سال قبل شائع کی تھی۔ اب اس کی دوسری جلد بھی شائع ہوگئی ہے جسے انجم حمید نے مرتب کیاہے۔ اس میں بعض نہایت خوب صورت خاکے اورمضامین دل نشیں انداز میں بعض اساتذہ کی علمیت اور ان کی شخصیت کی جاذبیت بیان کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ اس کی تیسری جلد کی تیار ی بھی جاری ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان نے مختلف پاکستانی زبانوں اور قومی زبان کی نامور شخصیات پر پاکستانی ادب کے معمار : شخصیت اور فن کے عنوان سے جو سیریز شروع کی تھی اس سال بھی اس کے تحت کچھ کتابیں شائع ہوئیں۔ مصاحبہ یعنی انٹرویو ہمارے دور میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کے ذریعے بعض اوقات اہم تاریخی، سوانحی اور سیاسی حقائق بھی منظر ِ عام پر آجاتے ہیں۔ اقبال خورشید فکشن نگار اور صحافی کے علاوہ انٹرویو کے میدان میں بھی معروف ہیں اور انھوں نے فکشن لکھنے والوں کے جو انٹرویو لیے انھیں اس سال سنگ میل پبلی کیشنز نے ’فکشن سے مکالمہ ‘کے نام سے شائع کردیا ۔
بک کارنر (جہلم) کے بانی شاہد حمید پر ان کے صاحب زادوں امر شاہد اور گگن شاہد نے ایک کتاب ’شاہد حمید:اے عشق ِ جنوں پیشہ‘شائع کی جس میں معروف اہل قلم کے مضامین شامل ہیں۔
راشد اشرف اور اٹلانٹس پبلی کیشنز کے کرتادھرتا فاروق احمد مل کر نئی اور پرانی کتابوں کے انبار لگا رہے ہیں اور اہم کتابوں کے نئے ایڈیشن’زندہ کتابیں‘کے نام سے چھاپنے کے علاوہ بعض ایسی اہم نگارشات بھی منظر ِ عام پر لارہے ہیں جن میں اہم ادبی، سیاسی اور سماجی نکات ملتے ہیں اورجو اب تک پردے میں تھیں۔ ایسا ہی ایک سلسلہ ’آواز خزانہ‘ کا ہے۔ دراصل لطف اللہ خاں صاحب کے سمعی کتب خانے (یعنی آڈیو لائبریری) میں معروف اور غیر معروف شخصیات کی آوازیں بہت بڑی تعداد میں محفوظ ہیں۔
ان میں بعض بڑے ادیبوں اور شاعروں کے انٹرویو بھی ہیں جو اہم شخصیات نے لیے اور جنھیں لطف اللہ خاں صاحب نے محفوظ کرلیاتھا مگر وہ کہیں چھپے نہیں۔ ایسے اہم انٹریو راشد اشرف کی نگرانی میں اٹلانٹس شائع کررہا ہے اور’ آواز خزانہ ‘کے نام سے اس کی چھے جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔
مثلاً چوتھی جلد میں مجنوں گورکھپوری، ماہر القادری اور اختر حسین رائے پوری کے طویل انٹریو شامل ہیں جنھیں محمود کاوش نے اپنے معانین مہناز انجم اور سلمان سہیل کے ساتھ مل کر آواز کے فیتے سے کاغذ کے صفحے پر منتقل کیا ۔ اٹلانٹس نے دیگر اہم کتابوں کی بار ِ دگر اشاعت کے ساتھ بچوں کے معروف رسالے ’تعلیم و تربیت‘ کے پچاس سال پرانے شماروں کوبھی ہوبہو دوبارہ شائع کرنا شروع کیا ہے۔ یہ بھی ایک بڑا اور عمدہ کام ہے۔
٭…خود نوشت اور یادداشتیں
محمود شام سینئر صحافی، شاعر اور نثر نگار ہیں۔ ان کی ضخیم خود نوشت’ شام بخیر‘ شائع ہوئی اور ناشر ہیں اٹلانٹس پبلی کیشنز ۔ فتح محمد ملک نامور نقاد ، دانش ور اور استاد ہیں ان کی خود نوشت ’آشیانہ ٔ غربت سے آشیاں در آشیاں‘ شائع ہوئی جس میں انھوں نے بعض اہم سیاسی، تاریخی، ادبی اور تہذیبی واقعات بھی پیش کیے ہیں۔
’دھوپ چھائوں ‘کے عنوان سے بریگیڈئیر نعمان الحق فرخ کی یادداشتیں شائع ہوئیں جن میں فوجی زندگی سے متعلق بعض حقیقی واقعات رواں اور شگفتہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ عرفان جاوید کے خاکوں کا ایک اور مجموعہ ’آدمی‘ شائع ہوا اور نظیر اکبر آبادی کے آدمی نامہ کی یاد تازہ کرگیا کیونکہ نظیر نے مختلف قسم کے اچھے برے لوگوں کا ذکر کرکے کہا ہے کہ سو ہے وہ بھی آدمی۔ انسان اور آدمی میں فرق ہوتا ہے ، بقول ِغالب ،آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔
انسان تو کامل ہوتا ہے اور آدمی ہے کمزوریوں اور خوبیوں کا مجموعہ ۔عرفان جاوید کے اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں لکھے گئے بعض عجوبۂ روزگار اورنادرہ کار لوگوں کے خاکے اس کتاب کا حصہ ہیں اور ان کا کمال یہ ہے کہ عام آدمی اور غریب آدمی میں بھی وہ بڑا آدمی تلاش کرلیتے ہیں کیونکہ انھیں ان میں انسانیت نظر آتی ہے بلکہ دراصل بڑے آدمی ہوتے یہی لوگ ہیں۔
’خاک سا خاکی‘ایک ایسے شخص کی خود نوشت ہے جس نے سادہ لیکن مشکل زندگی گزاری ۔ سادہ اسلوب میں لکھی گئی بریگیڈئیر بشیر آرائیں کی یہ خود نوشت جو اکادمی بازیافت (کراچی) نے شائع کی ہے قاری کو رُلاتی بھی ہے اور پاکستان کا احوال بھی بیان کرتی جاتی ہے۔
٭…اقبالیات
اقبالیات پر حسب ِ سابق خاصی کتابیں شائع ہوئی لیکن ان میں سب سے قابل ِ ذکر معروف اقبال شناس رفیع الدین ہاشمی کی ’کتابیات ِ اقبال‘ ہے۔ اس میں علامہ اقبال پر لکھی گئی تقریباً چھے ہزار کتابوں کا احوال درج ہے جو دنیا کی اکتالیس زبانوں میں اب تک شا ئع ہوچکی ہیں۔ یہ کتاب ایک شان دار تحقیقی کارنامہ ہے۔
جن ہندوستانی ادیبوں کی کتابیں پاکستان سے شائع ہوئی ہیں ان میں تقی عابدی بھی شامل ہیں جو کینیڈا میں رہتے ہیں۔ انھوں نے ’باقیات ِ اقبال ‘کے عنوان سے اقبال کا وہ کلام جمع کردیا جو اقبال کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہے۔ انھوںنے اس ضمن میں شائع ہونے والی گذشتہ کتب کا بھی حوالہ دیا ہے اور کچھ اضافہ بھی کیا ہے۔
٭…مزاح
مزاح کے قحط کے اس دور میں حسین شیرازی جیسے لوگ غنیمت ہیں جو مسلسل مزاح لکھ رہے ہیں۔ البتہ ان کی تازہ کتاب آٹھواں عجوبہ میں مزاح کے ساتھ تفکر اور وطن ِ عزیز کے حالات پر تشویش بھی موجود ہے۔ محمد حنیف شیوانی کی مزاحیہ تحریروں پر مبنی کتاب’ آپ سے پردہ ہے ‘شائع ہوئی۔
٭…زبان و لغت
سعودی عرب میں مقیم ہندوستانی عالم و مصنف ف۔ عبدالرحیم کا خاص موضوع الفاظ اور ان کی اصل تھا۔ اس سلسلے میں ان کی ایک کتاب ’پردہ اٹھادوں اگر چہرہ ٔ الفاظ سے‘ خاصی مشہور ہوئی اور اس کے ہندوستان اور پاکستان سے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان کی نئی کتاب’ گلستانِ الفاظ و معانی‘ لاہورسے کتاب سرائے نے شائع کی۔
مختصر کتاب ہے لیکن لفظیات پر اہم مباحث ہیں۔ افسوس ف عبدالرحیم صاحب کا چند ماہ قبل انتقال ہوگیا۔ راقم کی کتاب’ لفظیاتی مباحث ‘کراچی سے سٹی بک پوائنٹ نے شائع کی۔ اسی ادارے نے راقم کی کتاب ’لسانیات کے بنیادی مباحث ‘کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع کیا۔
وصی اللہ کھوکھر نے ’اردو افعال کی فرہنگ ‘کے نام سے اردو کے مصادر کی ایک لغت تیار کی۔ اس میں اردو کے بعض ایسے مصادر بھی درج ہیں جو عام طور پر مستعمل نہیں ہیں اور لغات میں بھی بالعموم نہیں ملتے۔ وصی اللہ کھوکھر نے اس سال ایک اور کام بھی کیا۔
انھوں نے اردو لغت بورڈ کے رسالے اردو نامہ میں مطبوعہ ایسے مقالات و مضامین دو جلدوں میں’مجموعہ ٔ مقالات : اردو نامہ‘ کے نام سے مرتب کردیے جو زبان، لغت ، قواعد، لسانیات اور صوتیات کے موضوع پر ہیں۔ اگرچہ یہ کام فرمان فتح پوری پہلے کرچکے تھے لیکن یہ انتخاب زیادہ وسیع اور متنوع ہے۔’گندھارا ہندکو لغت ‘جو ہندکو اردو لغت ہے دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی۔
٭…تراجم
اکادمی ادبیات پاکستان (اسلام آباد)نے مختلف زبانوں سے منتخب کہانیاں کئی جلدوں میں شائع کیں ۔ یہ ایک اہم اور مفید کام ہے لیکن بعض تراجم سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ براہ راست اس زبان سے ترجمہ نہیں ہے بلکہ انگریزی ترجمے کا ترجمہ ہے۔ یہ صورت حال قابلِ رشک نہیں کہی جاسکتی کیونکہ لسانی مجبوریوں کے سبب ترجمے میں بہت کچھ بدلنا بھی پڑجاتا ہے اور اس کا مزید ترجمہ کیا جائے تو ترجمہ اصل متن سے بہت دور جاپڑتا ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ اصل زبان سے براہ ِ راست اردو میں ترجمہ ہو۔
متفرقات
مستنصر حسین تارڑ کے سدا بہار سفرنامے ’نکلے تیری تلاش میں‘ کا صادقین ایڈیشن شائع ہوا۔
اٹلی کا سفرنامہ زاہد منیر عامر نے’ کشور ِ اطالیہ کی بہار ‘کے نام سے شائع کیا ۔ لیکن یہ سفر صرف جسمانی یا تفریحی نہیں تھا بلکہ اس میں ذہنی اور علمی در بھی واکیے گئے ہیں اور اٹلی کے علمی و تحقیقی اداروں کی سیر بھی کی گئی ہے۔ پیرزادہ شرف ِ عالم کی کتاب’ پچکا ہوا آدمی‘ مکالماتی مضامین پر مشتمل ایسا کا مجموعہ ہے جو تہذیبی اور سماجی مسائل پر فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ اشرف شریف کی کتاب ’ارمغان ِ لاہور‘ میں لاہور کے آثارو شخصیات کا بیان ہے اور لاہور کے متعدد تاریخی آثار اور باغات کی تباہی کا بھی حال درج ہے۔
٭…ادبی رسائل
ایک تعجب خیز اور مسرت انگیز امر یہ ہے کہ باوجود تمام مشکلات اور کاغذ کی گرانی کے اردو کے کئی ادبی رسائل شائع ہوتے رہے اور بعض نے اہم اور ضخیم خصوصی شمارے بھی شائع کیے۔ مثال کے طور پراقبال نظر نے ’کولاژ‘کا ایک ضخیم خصوصی شمارہ شائع کیا۔مبین مرزا کے پرچے’ مکالمہ‘ کا ضخیم سال نامہ اور دیگر متعدد شمارے شائع ہوئے۔ تحسین فراقی کی ادارت میں قائد اعظم لائبریری (لاہور) نے’ مخزن‘ کا نیا شمارہ شائع کیا۔ انصار احمد شیخ کی ادارت میں’ زیست ‘کے دو ضخیم شمارے بھی شائع ہوئے۔ ’اجرا ‘کا خصوصی شمارہ اسد محمد خان پر ہے۔ حیرت ہوتی ہے اور خوشی بھی کہ ان پرچوں کے مدیر ان نامساعد حالات میں بھی ضخیم شمارے شائع کررہے ہیں ۔صحیح معنوں میں یہ ادبی خدمت ہے۔
جبکہ ان کے مقابلے میں کثیر مالی وسائل رکھنے والی جامعات کے رسالے افسوس ناک صورت حال پیش کرتے ہیں۔ سوائے لمز (LUMS)کے تحقیقی جریدے’ بنیاد‘ کے تقریبا ً سبھی جامعاتی جرائد کوئی دل خوش کن منظر پیش نہیں کرتے،البتہ ناصر عباس نیّر کی ادارت میں’ بنیاد‘نے اپنے معیار کو برقرار رکھا۔ لیکن افسوس کہ دیگر جامعات کے شعبہ ہائے اردو سے شائع ہونے والے تحقیقی جرنل اب محض اس کام کے لیے رہ گئے ہیں کہ ان میں اساتذہ کے نام نہاد تحقیقی مقالات شائع ہوکر ان اساتذہ کی ترقی کا راستہ ہموار کرسکیں۔
اول تو یہ جامعاتی جرائد برسوں کے بعد ایک شمارہ شائع کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان میں اشاعت کے لیے اچھی خاصی رقم بھی دینی پڑتی ہے اور اسی لیے ان میں بھرتی کے تنقیدی مضامین تحقیق کے نام پر چھپوالیے جاتے ہیں کیونکہ جو شخص مقالے کے ساتھ بیس تیس ہزار روپے دے رہا ہے اس سے آپ معیار کا تقاضا نہیں کرسکتے۔ اسی لیے اب ان میں سے بیش تر کا کوئی معیار بھی نہیں رہا لہٰذا ان کا کیا ذکر کرنا۔ ایچ ای سی کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔
ماہناموں میں سے قومی زبان ، الحمرا اور اخبار ارد وشائع ہوتے رہے لیکن اب اخبار اردو کی اشاعت میں بھی وقفے حائل ہونے لگے ہیں۔ قومی زبان نے میرتقی میر پر ضخیم نمبر بھی شائع کیا۔ اکادمی ادبیات کے ادبی جریدے ادبیات کے دو شمارے شائع ہوئے۔ اکادمی نے بچوں کے لیے ادبیات ِ اطفال کے نام سے رسالہ جاری کیا ہے اوراس کے بھی اس سال دو شمارے اشاعت پذیر ہوئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
گذشتہ سال بھی شاعری پر زور رہا ۔ تحقیق و تنقید کی بھی کتابیں حسب ِ سابق بڑی تعداد میں سامنے آئیں جن میں ایم فل اور تحقیقی مقالے بھی تھے جن میں سے بیش تر کامعیار سوالیہ نشان ہے۔تحقیق کے ضمن میں جامعات کے تحقیقی جرائد نے بھی ایک آدھ کو چھوڑ کر سخت مایوس کیا۔البتہ فکشن کی کچھ عمدہ کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ مزاح اور سفرنامے بھی نسبتہً کم شائع ہوئے۔
یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ علم و ادب کی کساد بازاری اور روز افزوں مہنگائی کے باوجود سال دو ہزار تیئیس میں کتابوں کی اشاعت جاری رہی ، نئی کتابیں اور رسالے شائع ہوتے رہے۔ البتہ کتابوں کی تعداد ِ اشاعت کا مسلسل کم ہونا نئی نسل میں مطالعے سے دوری کا غماز تو ہے ہی، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عمومی رجحان بھی اب مطالعے کے بجائے تفریحات اور بالخصوص سماجی ذرائع ابلاغ کے تفریحی شعبدوں کی طرف زیادہ مرکوز ہوتا جارہا ہے۔ لیکن کچھ دیوانے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور تخلیق کے لطیف و حسین پھول کھلارہے ہیں دوسری طرف ادب اور مطالعے سے بے نیازی اور تغافل کا رویہ بھی پروان چڑھ رہا ہے، بقول ِ فیض احمد فیض :
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض ِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
کراچی آرٹس کونسل نے اِ مسال بھی اپنی روایت کے مطابق عالمی اردو کانفرنس میں کتابوں کی رونمائی کی نشستیں منعقد کیں جن میں اہل علم نے اظہار ِ خیال کیا اور بڑی تعداد میں حاضرین نے ان نشستوں میں دل چسپی لی۔ جن کتابوں کی رونمائی ہوئی ان کے اور ان کے مصنفین ؍مولفین؍ مترجمین کے نام یہ ہیں:
احوال وآثار (مبین مرزا)،بعد ازخدا (عابد رشید)، لواخ(اختر رضا سلیمی)، ایک اور رخ (یاسمین حمید)، مسز ڈیلووے(سعید نقوی)، تھر کی سرگوشی (ناہید سلطان مرزا)، کچھ محبت کچھ بے بسی(انورسن رائے)، مقدس گناہ (نینا عادل)، خوشبو کی دیوار کے پیچھے (محمد حمید شاہد)،کتنے یگ بیت گئے (ثروت زہرا)، میٹھے نلکے (نجیبہ عارف)، شاہ حسین (فرخ یار)، چراغ روشن ہے (عارف امام)، غروب ِ شہر کا وقت(اسامہ صدیق)، قیدی (انعام ندیم)، عشق سمندر (باسط جلیلی)، وجود (محمد حفیظ خان)۔