• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کا بادشاہانہ رویہ PTI کو نیا جنم دے رہا ہے، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ ‘ میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا بادشانہ رویہ پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نیا جنم دے رہا ہے ، محل میں بیٹھ کر پارٹی رہنماؤں کو بلا رہے ہیں اور سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہے ، انہیں ایک بار پھر خوشامدیوں نےگھیر لیا ہے ۔ پروگرام میں ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف نے تمام امیدواروں کو اطمینان سے سنا اور انٹرویو شفاف ہوگئے ، ہمارا بیانیہ بالکل واضح ہے ۔ پروگرام کے آغاز میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے میزبان سلیم صافی نے کہا کہ ان دنوں الیکشن سر پر ہے اور جہاں بڑے بڑے لیڈر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننے کے لیے مرے جارہے ہیں وہاں نچلی سطح کے ایم این اے ایم پی اے بننے کے لیے ہر حد پار کر رہے ہیں حالانکہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اس تالاب سے بہت کم لوگ عریاں ہوئے بغیر نکلتے ہیں۔ نوازشریف تین دفعہ وزیراعظم بنے اور تینوں مرتبہ نکالے گئے ایک لمبے عرصے تک اپوزیشن کی سیاست بھی کی اور دو مرتبہ جلاوطنی بھی کاٹی ۔ نوازشریف اور مریم نوا ز کا شمار بہادر سیاستدانوں میں اس لیے ہوتا ہے کہ وہ موت کا رسک لے سکتے ہیں 99میں جب چار جنرل ان کے پاس گئے اور بندوق کی نوک پر ان سے استعفیٰ لینا چاہا لیکن انہوں نے نہیں دیا وہ ضدی بھی ہیں اور بعض مواقعوں پر ڈٹ بھی جاتے ہیں۔مریم نواز نے بھی بڑی بہادری سے عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے مشترکہ مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا باوقار طریقے سے جیلیں کاٹیں اور اپنی ماں کو جس حالت میں چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اس کے لیے بڑا جگر چاہیے۔ لیکن جب ان کا اقتدار آتا ہے تو ان کا رویہ بالکل بادشاہوں والا ہوجاتا ہے لیکن اس بار اقتدار میں آنے سے پہلے باپ بیٹی کا رویہ بادشاہوں والا ہوگیا ہے۔ وطن واپسی پر نوازشریف کو چاہیے تھا کہ وہ پارٹی تنظیم پر توجہ دیتے لیکن یہاں واپسی کے بعد وہ اپنے محل میں بیٹھ کر پارٹی رہنماؤن کو وہاں بلا رہے ہیں وہ ابھی تک سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے کیسز بھی کسی اور نے ختم کرانے ہیں سیاسی بیانیہ بھی کسی اور نے تشکیل دینا ہے اور تحریک انصاف کو بھی کسی اور نے سنبھالنا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کسی اور نے یہ سارے کام کر کے اقتدار ان کی جھولی میں ڈالنا ہے۔نوازشریف کم سے کم یہ کرسکتے تھے کہ پختونخوا کی ٹکٹوں کی تقسیم پختونخوا جا کر ہی کرتے اور سندھ بلوچستان میں بھی جا کر کرتے تو امیدواروں کو یہ تاثر نہ ملتا کہ وہ غلام ہیں۔ وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں لیکن ان کی سوچ پنجاب تک ہی محدود ہے۔ بادشاہانہ رویہ کی وجہ سے تحریک انصاف کو پختونخوا اور پنجاب میں نیا جنم مل رہا ہے اور اگر یہی سب چلتا رہا تو انتخابی مہم شروع ہونے تک وہ عوام کے سامنے جانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح نوازشریف کو ایک بار پھر خوش آمدیوں نے گھیر لیا ہے اور اگر ایسا ہی رہا تو ان کا چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب مشکل سے ہی پور اہوگا۔ مسلم لیگ نون کے رہنمااحسن اقبال نے کہا کہ شہبا زشریف جو مسلم لیگ نون کے صدر ہیں وہ عوامی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں حال ہی میں انہوں نے شیخوپورہ میں جلسے سے خطاب کیا ہے۔ نوازشریف کی صدارت میں مرکزی پارلیمانی بورڈ سارے پاکستان کے امیدواروں سے کر رہے تھے جس میں شفاف طریقے سے ہر امیدوار کو سنا گیا ہے واحد پارٹی نون لیگ ہے جس نے ٹرانسپرنٹ طریقے سے امیدواروں کے انٹرویو لیے ہیں تاکہ بہترین امیدواروں کو آگے لایاجاسکے یہ سلسلہ جاری تھا جو ابھی ختم ہوا ہے۔ ہمارے جلسوں کے پروگرام ترتیب دئیے جاچکے ہیں جس میں نوازشریف اور مریم نواز شرکت کریں گے ۔ ہمارا بیانیہ واضح ہے کہ اس الیکشن کا انحصار دو چیزوں پر ہے پہلی یہ ہے کہ پاکستان میں امن ہوگا تو ہم بہتر معاشی پالیسیز کو اپنا سکیں گے جو ملک کے لیے ضروری ہیں ۔ یا الیکشن کے نتیجے میں ملک میں انتشار ہوگا اور پاکستان اس کو افورٹ نہیں کرسکتا ۔تحریک انصاف کے کارکنوں کے کاغذات مسترد ہونے کی جہاں تک بات ہے اس ملک میں عدالتیں موجود ہیں اگر کسی جگہ ان کے ساتھ غلط طریقے سے کاغذات مسترد ہوئے ہیں تو اپیل میں جاکر بحال کروایا جاسکتا ہے۔ ہم اٹھائیس مئی والے ہیں اور وہ نو مئی والے ہیں ۔بلے کے انتخابی نشان کے لینے یا لوٹانے کی نہیں ہے اس وقت ہم ایک رویہ دیکھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف مسلسل اپنی سیاسی ایجنڈے میں پاکستان کی عدلیہ کو ملوث کرتی ہے۔ پشاور میں جو فیصلہ لیا گیا ہے اس کا مطلب ہے الیکشن کمیشن کو انڈر مائن کر کے انتخابی عمل کو ڈسٹرب کرنا ہے تحریک انصاف چاہتی ہے کہ الیکشن التوا کا شکار ہوجائیں۔منڈیلا نے جہاں ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن بنایا اور ایک وقت میں وہ عملی سیاست سے ریٹائر ہوگئے اور قوم کی رہنمائی کرتے رہے تو کیا نوازشریف کا بھی وہی وقت نہیں آگیا ہے اس کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ نیلسن منڈیا نے یہ فیصلہ تب کیا جب انہوں نے اپنی ریاست میں آرڈر قائم کر دیا اس کے بعدانہوں نے اقتدار نئی قیادت کو منتقل کردیا اس وقت پاکستان بیچ منجھدار میں موجود ہے اس وقت پاکستان کو منجھے ہوئے لیڈر کی ضرورت ہے اور یہ مشن تب ہی مکمل ہوسکتا ہے جب ایک آفیشل رول موجود ہو ۔پنجاب کے وزارت ِ اعلیٰ کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ جو ہماری حلیف جماعتیں ہیں جب ہم اپوزیشن میں تھے ہمارے ساتھ شریک رہیں پھر پی ڈی ایم میں جو ہمارے ساتھ جماعتیں شریک رہیں فضل الرحمن سے بات چیت ہو رہی ہے ایم کیو ایم کے ساتھ بھی سندھ اور کراچی کی حد تک بات ہو رہی ہے۔
اہم خبریں سے مزید