حفیظ چودھری
ہمارے پاس ایسے نوجوانوں کی افرادی قوت موجود ہے جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے، جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں جو اس ملک کو مایوسیوں اور نا امیدیوں کی منجھدھار سے نکال سکتے ہیں۔ نظامِ تعلیم اور نظامِ تربیت پر مغربی افکارو تہذیب کے غلبہ کے باوجود ہماری درسگاہوں میں ایسے بھی نوجوان پائے جاتے جو ساری مشکلات کے باوجود اپنے فرائض کو سرگرمی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خود اعتمادی، آگے بڑھ جانے کی جستجو، نیک مقصد اور مضبوط ارادے ہوں تو نا امیدی کبھی بھی حاوی نہیں ہوسکتی۔ نوجوان خود اس کے لیے کوشش کریں۔ آج کی انتہائی جدید دنیا کی ثقافت کی اجارہ داری سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں وہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور ان میں اپنے برے اور بھلے کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہےوہ اپنا راستہ خود بنا سکتے ہیں، اس وجہ سے تمام تر انحصار حکومت ہی کی کوششوں پر نہیں ہے بلکہ خود طلبہ کی اپنی کوششوں پر بھی ہے۔
نوجوانوں کو خود یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان ہیں اور انہیں اس سرزمین میں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے رہنا ہے۔ ہماری درس گاہوں میں ایک مدت دراز سے اخلاق کے معاملہ میں شدید غفلت ہی نہیں برتی جارہی ہے بلکہ ایک ایسی ثقافت کو پروش کیا جا رہا ہے جو اسلام کے تمام تصورات کی اور اس کے تما م بنیادی اخلاقی نظریات کی ضد ہے۔ہمارے نوجوان طلبہ کو خود اس کے نقصانات محسوس کرنے چاہییے۔ مٹی سے وفاداری اس وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے، اگرچہ ملکی حالات بہتر نہیں، معاش و روزگار کا فقدان ہے، لیکن بہ ہر طور یہ ملک ہمارا ہے، اس ملک نے ہمیں اور ہمارے آباؤاجداد کو پالا ہے۔ آج تک ہم نے اس ملک کو استعمال کیا ہے۔
آج جب اس ملک کو ان کی ضرورت ہے تو چپکے سے بیرون ممالک نکل جانا کہاں کی عقل مندی اور وفا شعاری ہے، جنھیں ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے، اس ملک میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہر دوسرا نوجوان امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ یا کسی یورپی ملک میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت ملک و قوم کی خدمت کے لیے پرعزم ہوں، تاکہ ان مشکل حالات میں مملکت خداداد پاکستان کو استحکام نصیب ہو۔ یاد رکھیں کہ دنیا میں آدمی کا وزن اس کی صلاحیتوں کے حساب سے ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی صلاحیتوں کواَپ ڈیٹ کریں کیوں کہ اَپ گریڈ کرنا عقل مندوں اور دنیا میں کچھ کر گزرنے والوں کا شیوہ ہوتا ہے۔
اپنی تمام تر غیر ضروری سرگرمیوں کو ترک کرتے ہوئے تعلیم کے میدان میں متحرک ہو جائیں، نجی زندگی کی مصروفیات کو کم سے کم تر کر دیں۔ روایتی مضامین سے ہٹ کر مصنوعی ذہانت، سائبر سیکورٹی، آئی ٹی، سافٹ ویئر انجینئرنگ، آرٹیفیشل پراڈکشن اور ان جیسے جدید علوم کی جانب قدم بڑھائیں۔ یہ علوم ہی معاشی حالات کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔ اپنے دوست و احباب کے ساتھ مل کر چھوٹی چھوٹی انجمنیں بنائیں، صاحب استطاعت افراد اپنی بساط کے مطابق رفاہی فنڈز فراہم کریں، جو بعد ازاں باہمی مشاورت سے مختلف رفاہی سرگرمیوں، خصوصاً تعلیم، صحت اور خوراک میں استعمال ہو سکیں۔
نوکری کے بجائے جزو وقتی کاروبار کی بنیاد ڈالیں، روزانہ کی بنیاد پر اسے وقت دیں، ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے اسے پروموٹ کریں، تاکہ آنے والے وقت میں آپ کے پاس مستقل ذریعہ آمدن ہو۔اسلامی تعلیمات اور اپنے اسلاف کی تاریخ سے رشتہ مضبوط کریں، ان کے کارناموں کے پیچھے چھپی صلاحیتوں کوجانیں۔ سادہ طرز زندگی کو اختیار کریں، برانڈڈ کے پیچھے نہ بھاگیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جو چیز تیار ہو رہی ہے وہ شاید ناقص معیار کی ہو گی۔
سب سے پہلے تو اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، تاکہ ملکی سرمایہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بجائے لوکل کمپنیوں کے پاس جائے، آپس کے موازنے کے بجائے اقوام عالم سے موازنے کا ہدف متعین کریں، سوشل میڈیا پر مباحثے کے بجائے علمی حلقوں میں مکالمے کا رجحان اپنائیں۔
سیاست کے میدان سے حتی الامکان کنارہ کشی اختیارکریں، ایسی بلاضرورت وابستگیاں ہی آپس میں رنجشیں، نفرتیں اور انتشار پھیلنے کا سبب بنتی ہے۔ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنے اور پورے دل سے ملک کی خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے پالیسی ساز نوجوانوں اور ان کی امنگوں کو پروان چڑھانے کے لیے منصوبے بنائیں۔ پاکستان کی ترقی ان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔