• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میمونہ حنیف

وقت کی رفتار جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اتنی تیزی سےجھوٹ ، بغض اور کینہ جیسی برائیاں بھی پروان چڑھتی جا رہی ہیں۔ پہلے طلبا اساتذہ کی عزت و تکریم میں اونچی آواز میں بات تک نہیں کرتے تھے۔ اساتذہ بھی صرف درسی تعلیم ہی نہیں بلکہ اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو شخص زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک لے جاتا ہے، لکھنا ، پڑھنا، معاشرے میں رہنے کے گُر سکھاتا ہے، آج ہماری نسل نو کی اکثریت ان کی عزت نہیں کرتی۔ اس میں نوجوانوں سے زیادہ قصور وار والدین ہیں، جو اپنی اولاد کو اساتذہ کی عزت کرنا نہیں سکھاتے، انہیں یہ باور نہیں کراتے کہ اگر تم نے ان کے ساتھ بد تمیزی کی یا انہیں شکایت کا موقع دیا، تو سخت سزا پاؤگے۔ 

بچوں کواعتماد فراہم کرنا، انہیں ماڈرن تعلیم دلوانا اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی تربیت دینا الگ بات ہے لیکن ، اس ماڈرن ازم کے چکر میں ہماری نئی نسل اساتذہ کا تقدس بھول گئی ہے۔اسے لگتا ہے کہ اساتذہ محض ان کے تنخواہ دار ملازم ہیں، جو پیسے لے کر انہیں تعلیم دے رہے ہیں، حالاں کہ یہ سوچ اتنی فرسودہ اور غلط ہے، جس کا انجام سوائے تاریکی کے اور کچھ نہیں۔ اساتذہ کی مثال تو ایک خزانے کے مالک کی سی ہے، اگرطلبا کوعلم کا خزانہ حاصل کرنا ہے، تواساتذہ کی عزت کرنی ہوگی، تب ہی وہ علم سے استفادہ کر پائیں گے۔ 

کہا جاتا ہے کہ معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے، بد اخلاقی، بد نظمی، پھیل رہی ہے، لیکن اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی جا تی، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نسل نو کی تربیت نہیں ہو رہی، جب وہ اساتذہ کی عزت نہیں کرتے، تو اساتذہ بھی بس کلاس کا وقت پورا کرنے یا اپنی ذمے داری پوری کرنے کے لیے کلاس لے کر چلے جاتے ہیں، اس کے بر عکس پہلے زمانے میں اساتذہ تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی زور دیتے تھے، کلاس کے باہر بھی اگر اپنے کسی شاگرد کو کوئی غلط کام کرتا دیکھ لیتے، تو وہیں اس کی سر زنش کرتے، اسے ڈانٹتےاور ان کے شاگرد کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ پلٹ کر انہیں جواب دے یا اپنے والدین سے ان کی شکایت کرے، موجودہ دور میں تو معاملہ بالکل ہی بر عکس نظر آتا ہے، لیکن جب تک حقیقی معنوں میں اساتذہ کی دل سے عزت نہیں کی جائے گی، علم کو خزانے سے طلبا صحیح معنوں میں مستفید نہیں ہوسکتے۔

دوسری جانب اساتذہ کرام کوبھی چاہیے کہ وہ اپنے وقار، عزت نفس ، مقام و مرتبہ اور وقعت و توقیر میں اضافہ کریں۔ مادیت پرستی سے اجتناب کرتے ہوئے درس و تدریس کو اپنا شعار بنائیں۔ اسلاف کی زندگیوں سے رہنمائی حاصل کریں۔ اپنے شاگردوں کو حقیقی بچوں جتنا مقام دیں، انہیں درسی تعلیم فراہم کرنے کے علاوہ اخلاقی تربیت بھی کریں،تاکہ وہ اچھے شہری بن سکیں۔ اپنی ملازمت کو مقدس پیشے کا درجہ دیں۔