اسلام آباد(رپورٹ :،رانا مسعود حسین، ٹی وی رپورٹ) سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان سے متعلق مقدمہ کی تقریبا نو گھنٹے کی طویل سماعت کے بعد رات دیر گئے متفقہ فیصلہ جاری کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرکے پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے جس کے بعد پی ٹی آئی بطورسیاسی جماعت الیکشن سے باہر ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ نے ساڑھے چار گھنٹے کی طویل انتظار کے بعد پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی ہے اور قرار دیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی درخواست ناقابل سماعت تھی،6صفحات پر مشتمل متفقہ فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پڑھ کر سنایا ہے.
جس میں قرار دیاگیا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبول کرنے کے بعد پشاور ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کی درخواست ناقابل سماعت تھی ، الیکشن کمیشن 2021 سے پی ٹی آئی کو پارٹی انتخابات کرانے کا کہ رہا ہے،پشاور ہائیکورٹ کو لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا مقدمے کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے خلاف بدنیتی اور امتیازی سلوک کے الزامات مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کامعمولی بے ضابطگیوں سے تعلق نہیں ہونا چاہیے تاہم یہاںبادی النظر میں انتخابات ہونے کے کوئی شواہد ہی نہیں دیے گئے 13دیگر جماعتوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے جبکہ ایک پارٹی (آل پاکستان مسلم لیگ )کا وجود ہی ختم کیا گیاہے جس نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جو کہ مسترد کردی گئی ہے۔
فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے انٹرا پارٹی الیکشن کا ڈکلریشن نہیں مانگا تھا اور نہ ہائی کورٹ نے ڈکلریشن دیاہے۔
تحریک انصاف کے14ارکان نے پارٹی انتخابات کے بارے میں شکایات کیں۔
پاکستان کی بنیاد جمہوریت ہے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما گوہر علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو کہا وہ کہنا اس کا حق ہے،فیصلے کیخلاف نظرثانی اپیل کرینگے،آذاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے ،تاہم انہوں نے خبر دار کیا کہ یہ کرپشن کی ابتدا ہوگی، ہماری 227مخصوص نشستیں چلی گئیں۔
دوسری جانب اکبر ایس بابر نے کہا کہ پاکستان کی جمہوریت کیلئے نئی سمت کا تعین ہوگا، آج کے فیصلے نے اس موقف کی تجدید کی ہے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ جب تفصیلی فیصلہ آئے گا اس سے پاکستان کی سیاست میں انٹرا پارٹی الیکشن کی اہمیت بھی سامنے آئے گی، یہ جمہوری عمل اب رکے گا نہیں مزید آگے بڑھے گا۔
تفصیلات کے مطابق عدالت نے قرار دیاہے کہ پاکستان جمہوریت کے نتیجے میں وجود میں آیاہے ،جمہوریت سیاست کی روح ہے ، پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215کے تحت کارروائی کا مجاز ہے،دوران سماعت اچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریما رکس دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں مسئلہ کیا تھا ؟کیوں نہیں کرائے گئے؟یہ مسائل پی ٹی آئی نے خود اپنے لیے کھڑے کیے ہیں،اگر پارٹی نے خود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے تو انتخابی نشان کیسے مانگ سکتی ہے؟انہوںنے کہاکہ اسمبلی تحلیل کرکے آئین کی خلاف و رزی کی گئی، پی ٹی آئی نے خود پر خود کش حملہ کیا ہے۔
فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دستاویزات سے ثابت کرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن منعقد ہوئے تھے ؟،اس کی اہمیت یہ ہے کہ پارٹی کے بانی ارکان جیل میں ہیں اور مقدمات کا سامنا کررہے ہیں کل کو وہ یہ سوال اٹھاسکتے ہیں کہ گھس بیٹھیوں نے ان کی پارٹی پر قبضہ کرلیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں ، ہماری دلچسپی صرف جمہوریت میں ہے باقی چیزوں میں نہیں پڑیں گے، ہمیں لولی لنگڑی نہیں بلکہ پوری جمہوریت چاہیے، اگر بیرسٹر گوہر علی خان کو چیئر مین کے عہدہ کے لیے نامز دکیا تھا تو اس کا ثبوت کدھر ہے؟، سب نئے چہرے آگئے ہیں، پرانے کدھر ہیں، تمام نئے چہرے سامنے آنے سے یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ پارٹی پر قبضہ ہوگیا ہے، چار لوگوں نے بیٹھ کر پوری پارٹی بانٹ لی ہے، کیا یہ جمہوریت کے برعکس نہیں ہے ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک شخص کا نامز دکردہ پینل بلا مقابلہ یقینا منتخب ہوگا تو میں اسے انتخاب کا درجہ نہیں دوں گا،کل قومی اسمبلی 326 ارکان بلا مقابلہ منتخب ہوجائیں تو ہم تو اسے نہیں مانیں گے۔
فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آمریت کا آغاز اپنے گھر سے ہوتا ہے،سیاست اور کچھ نہیں ہے جمہوریت ہی توہے ،جمہوریت جمہوریت کے نعرے لگانے والے پہلے اپنے آپ میں تو جمہوریت لائیں،بلا مقابلہ منتخب ہونا جمہوریت تو نہیں ہے،یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن منعقد ہی نہ ہو اور انتخابی نشان مل جائے۔
انہوں نے کہاکہ جب لوگ طاقت میں ہوتے ہیں توپرواہ نہیں کرتے، اس سے پہلے بھی ایک جماعت کے سربراہ کو ہٹایا گیا تھا ،کل پرسوں سینیٹ میں قرارداد لانے والا وہی شخص تھا جو اس کے نتیجے میں آزاد ہوگیا تھا، فیض آباد دھرنہ کیس کی سماعت کے دوران الیکشن قوانین کو ʼʼکاسٹمیک لاء ʼʼ نمائشی قوانین کہا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ادروں کو کنٹرول نہیں کرسکتی لیکن اگر کوئی ادارہ غیر قانونی اقدام کرے تو اسے دیکھاجا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں کا الیکشن ہورہا تھا اور کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ووٹ ڈالنا کہا ں ہوگا؟پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن دیکھنے کا اختیار نہیں ہے ، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209کی خلاف ورزی ہوگی تو الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215کے تحت الیکشن کمیشن کارروائی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کررہے ہیں تو پی ٹی آئی میں بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے، تحریک انصاف نے تو اپنے ہی ممبران کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا تو نعرہ لوگوں کو بااختیار بنانے کا تھا ، پی ٹی آئی نے اپنے ہی ممبران کو انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کا حق نہیں دیاہے۔
چیف جسٹس نے کہا کاغذات نامزدگی کی فیس پچاس ہزار روپے مقرر تھی ،بتائیں کہ یہ فیس کہاں اور کیسے جمع ہوئی تھی ؟ عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے امتیازی سلوک اور الیکشن کمیشن کی بدنیتی کا موقف مسترد کیا اورچیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آل پاکستان مسلم لیگ کا جود ہی ختم کردیا ہے جبکہ 13دیگر جماعتوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کے الزام کا موقف واپس لے لیا جبکہ عدالت نے ایک بار پھر انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ دو مختلف ہائی کورٹس میں اٹھانے اور معاملے پر پہلے لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبول کرنے کا سوال اٹھایا۔
چیف جسٹس نے آبز رویشن بھی دی کہ پشاور ہائی کورٹ کے سامنے پی ٹی آئی کی یہ استدعا تھی ہی نہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن درست ہوا ہے ، ۔پی ٹی آئی کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ ساتھیوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کریں گے۔
بریسٹر گوہر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رٹ پٹیشن نہیں کی اس لیے کہ ہم نے پٹیشن ہوا ہے کہ یہ maintainable پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن نہیں تھی اس لیے کہ ہم نے پٹیشن لاہور میں فعال کر دی تھی بالکل مس لیڈنگ ہے اس کی ہم نے ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ ہماری ایک پٹیشن پشاور ہائیکورٹ میٰں پینڈنگ ہے وہ ایک قانونی گراؤنڈ پر تھی پہلے سے پینڈنگ پٹیشنوں کے ساتھ وہ پٹیشن گئی تھی اس پٹیشن میں پارٹیاں بھی مختلف تھیں اس میں ایشو بھی مختلف تھا پشاور ہائیکورٹ کی پٹیشن اس بنیاد پر فعال ہوئی تھی کہ ہم نے الیکشن کرائے اور الیکشن پشاور ہائیکورٹ میں ہم لے، اس فیصلے میں تذکرہ ہوا ہے جس چودہ بندوں نے درخواستیں دی ہیں وہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکیڈنشنل کے لوگ اور پارٹی ممبر سے یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے ان میں سے کوئی ایک بھی تحریک انصاف کا ممبر نہیں رہا ۔ میٹریل وقت پر کبھی نہیں رہا ہمارے آٹھ لاکھ سینتیس ہزار نو سو پچاس ممبران میں سے سنگل بندے نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ عمران خان کی آواز کے لیے ہے۔ بلا رہے نہ رہے انشاء اللّٰہ پاکستانی عوامی عمران خان کی آواز پر ووٹ دیں گے۔ جو قوتیں اس کو ہٹانا چاہتی ہیں آٹھ فروری کو ان کو شکست ہوگی کورٹ ہمیشہ ، کورٹ کے فیصلے کو کوئی میلافائڈی نہیں کرتا کورٹ کے فیصلے ہمیشہ تاخیر سے آتے ہیں اس میں فرق نہیں پڑتا سپریم کورٹ کا حق ہے وہ جیسے کہے ہمارا حق ہے ریو کا انشاء اللّٰہ اس فیصلے کے خلاف ریو کریں گے اور انشاء اللّٰہ تعالیٰ بحال نہیں رہے گا۔ فیصلے نے ہمیں بلے سے محروم کیا ہے ہم سے 227 ریزو سیٹیں چلی گئیں ہم سے اس کے لیے ہمارے سارے امیدوار آزد الیکشن لڑیں گے ۔ اس سے کرپشن کی ابتدا ہوگی اور جو ہم چاہتے ہیں پاکستان کی پارلیمان مضبوط ہو کرپشن سے پاک ہو وہ اپنے ووٹوں میں چاہے وہ چیف مینسٹر کی ہے وزیراعظم کی ہے صدر کی ہے ڈپٹی اسپیکر کی ہے اس میں پیسے کا لین دین نہ ہو۔عدلیہ کا کام ہے سب کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔ اگر آپ سب کو آؤٹ کرنا چاہتے ہیں الیکشن پراسیس سے تو بے شک آؤٹ کر دیں ابھی ہم سوچیں گے بڑی مضبوط پارٹی ہے الحمداللّٰہ پاکستان تحریک انصاف بڑی مضبوط پارٹی ہے ہم آرگنائز کریں گے اپنے امیدواروں کو ہم نے ٹکٹ دئیے تھے ان کے بارے میں مہم چلائیں گے کہ یہ ہمارے امیدوار ہیں یہ ان کے نشانات ہیں۔جس وقت آپ الیکشن لڑتے ہیں اور آزاد لڑتے ہیں جب آپ آزاد ہیں تو پارٹی کی ہدایات لاگو نہیں ہوتی ہ یں اس لیے آپ پر آرٹیکل 63-A لاگو نہیں ہوتا جس کو چاہیں ووٹ دیں اس کو فرق کو ہٹانے کے لیے ہم ساری کوشش۔انشاء اللہ ہمارا نہ کوئی ووٹر سپورٹر نہ بکتا ہے نہ ہمارے امیدوار۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا گیا ہے، اس فیصلے سے پاکستان کی جمہوریت کیلئے نئی سمت کا تعین ہوگا، سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہیں، اگر جمہوریت کی بنیاد کمزور ہو تو اس پر ایک مضبوط عمارت قائم نہیں کی جاسکتی، آج کے فیصلے نے اس موقف کی تجدید کی ہے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ جب تفصیلی فیصلہ آئے گا اس سے پاکستان کی سیاست میں انٹرا پارٹی الیکشن کی اہمیت بھی سامنے آئے گی، یہ جمہوری عمل اب رکے گا نہیں مزید آگے بڑھے گا،تمام سیاسی جماعتوں کو اس عمل میں شامل ہونا پڑے گا، ہم اللّٰہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے، پاکستان تحریک انصاف کو ایک رول ماڈل بننا تھا، آج ہم نے اس کی طرف ایک عملی قدم اٹھایا ہے، پاکستان تحریک انصاف اور باقی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا بنیادی آئینی حق تھا کہ وہ اپنی قیادت کا انتخاب کریں، وہ ایک جمہوری عمل کا حصہ بنیں اور اس جمہوری عمل کے ذریعہ ایسی باصلاحیت قیادت سامنے آئے جو ہمارے مسائل کا حل کرسکے، یہی ہماری پہلے دن سے استدعا تھی، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ انٹراپارٹی الیکشن کی اہمیت سامنے آئی ہے، انٹراپارٹی الیکشن کے بارے میں شعور پیدا ہوا ہے، ایک دفعہ قوم میں شعور پیدا ہوجائے تو اس کا کعبہ قبلہ ٹھیک ہونے لگتا ہے، یہ سیاسی لیڈروں کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام کی تجدید نو کی ضرورت ہے، ایک ایسا نظام جس میں مایوسی نہ ہو امید ہو، جس میں ہمارے باصلاحیت اورباکردار لوگ سیاسی عمل کاحصہ بن سکیں اور لیڈرشپ رول میں آسکیں، پچھلے دو دنوں میں جھوٹ کے بڑے بڑے بت ٹوٹے ہیں اور سچائی سامنے آئی ہے، 2011ء سے ہم نے تحریک انصاف کو ادارہ بنانے کی مہم شروع کی، پہلے فارن فنڈنگ کیس کیا جس میں اللّٰہ نے سرخرو کیا، آج انٹراپارٹی الیکشن کے معاملہ میں بھی اللّٰہ نے سرخرو کیا، ہم پر کون سا الزام نہیں لگایا گیا کون سا کیچڑ نہیں اچھالا گیا، آپ نے دیکھا پچھلے دو دنوں میں وہ جھوٹ دھڑام سے گرگیا، آج سچائی سامنے آئی ہے سچائی کا راستہ کھلتا ہے تو اسے کوئی بڑی سے بڑی طاقت نہیں روک سکتی، یہی راستہ ہمارا مستقبل ہے اسی راستے پر چلنا ہے، پاکستان تحریک انصاف سے ہم نے یہ عمل شروع کیا اب باقی جماعتوں میں بھی جائے گا کہ ہم نے سیاسی جماعتوں کو ادارہ بنانا ہے، سیاسی جماعت کے کارکنوں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ سڑکوں پر مار کھائیں، جیلیں بھگتیں اور چند شخصیات اور خاندانوں کے اقتدار کیلئے محض ایک سیڑھی کا کام کریں، آج جو حالات سامنے آرہے ہیں اور کارکنوں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔