تحریر: بیرسٹر عثمان چیمہ… لندن
عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ صاحب نے سپریم کورٹ کو بد عنوان عناصر سے پاک کرنے کا جو کام شروع کیا ہے۔ اس پر ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، پچھلے کئی سال سے ہم دیکھتے آ رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے چند مخصوص جج صاحبان اپنے ہی ادارے کی عزت و وقار کو روندتے ہوئے ملکی تاریخ کے متنازع فیصلے دیتے جا رہے تھے جس سے عوام میں شدید مایوسی اور ملک میں انتشار پھیل رہا تھا، عام عوام کا اپنے ہی ملک کی سب سے بڑی آئینی عدالت سے اعتبار اٹھتا جا رہا تھا، یہ چند مخصوص جج جن میں سے کچھ ریٹائر ہو چکے اور کچھ حال ہی میں مستعفی ہو چکے، اپنے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہوئے ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے اور ایک مخصوص پارٹی کے ہمدرد بنے رہے لیکن اس وقت معاملہ اور میری یہ گزارشات ان ریٹائر اور مستعفی ہو جانے والے جج صاحبان سے ہی متعلق ہیں، کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران کسی اخباری رپورٹر نے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل سے پوچھا تھا کہ کیا برطانیہ اس جنگ کے بعد بھی عظیم ملک رہے گا۔ تو ونسٹن چرچل نے بغیر کچھ سوچے جوابا سوال کیا تھا کہ کیا ہمارے ملک میں عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟ اس پہ رپورٹر نے کہا کہ بالکل برطانوی عدالتیں آزادانہ اور منصفانہ فیصلے دے رہی ہیں۔ تو ونسٹن چرچل نے بلا توقف کہا کہ پھر برطانیہ کی عظمت برقرار رہے گی۔ یہ معیار جو نوزائیدہ مملکت اسلام نے 1400سو سال پہلے اپنے قاضیوں، منصفوں کے لئے مقرر کیا، کیا وجہ ہوئی کہ غیر مسلم اس پہ عمل پیرا ہو کے عظیم سے عظیم تر ہو گئے اور مسلمان ان پیمانوں سے دور ہو کر عدل و انصاف کے عالمی معیار میں بھی تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے، خیر بات دور نکل گئ، لیکن آج میں عزت مآب چیف جسٹس پاکستان سے چند اہم گزارشات کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں، 1۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اگر کسی قاضی پہ انگلی اٹھا دی جائے اور اس پہ کرپشن کا الزام لگ جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہے اور پھر الزامات کا سامنا کرتا ہے، اگر الزام ٹھیک ہوں تو اس کو سزا بھی ملتی ہے اور اس سے بعد از ملازمت تو دور، دوران ملازمت ملنے والی مراعات بھی واپس لی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان کا عدالتی قانون اس ضمن میں سقم کا شکار ہے، یہاں ملازمت سے مستعفی ہو کراپنی مراعات کو بچایا جاتا ہے۔ کیا یہ غریب عوام کے حق حلال اور محنت کی کمائ سے دیئے گئے ٹیکس، جو کہ ان جج صاحبان کی دوران ملازمت اور بعد از ملازمت، تنخواہ و پنشن سمیت دیگر مراعات کا بوجھ اٹھانے کی بنیادی جزو ہے، ان کے خون پسینے سے دئے گئے پیسے کا ناجائز اور غیرقانونی استعمال نہیں ہے، آخرعوام کیوں ان کرپٹ، نااہل لوگوں کو بعد از ریٹائرمنٹ ملنے والی مراعات کا بوجھ اٹھائیں، 2۔ کیا ریٹائرمنٹ یا استعفی کی صورت میں حاصل مراعات پہ سپریم کورٹ کو اپنے اور سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز میں تبدیلی نہیں کرنی چاہئے؟ کہ جو جج سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائ کے دوران یا اپنے خلاف آنے والے کسی ممکنہ ریفرنس کی وجہ سے مستعفی ہو، اسکی، پنشن، پٹرول، بجلی و گیس کے بل سمیت دیگر مراعات واپس لے لی جائیں۔ تا وقتیکہ سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ اس ضمن میں اسے باعزت بری نا کر دے۔ 3۔ اور اگر اس کام میں کوئ آئینی رکاوٹ ہو تو پھر سپریم کورٹ کو مقننہ کو ہدائت اور گائیڈ لائن دینی چاہئے کہ وہ اس ضمن میں فوری اور ضروری قانون سازی کرے۔ 4۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اپوائنٹمنٹ کا طریقہ کار بھی انتہائ ناقص ثابت ہوا ہے اور کئ دفع ماضی قریب میں اس وقت کے چیف جسٹس صاحبان نے اپنی من پسند کے جونئرجج پروموٹ کروائے ہیں۔ اس ضمن میں بھی ادارے کی ساکھ بحال رکھنے کے لئے ایک نیا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں میرٹ پہ لوگ اوپر لائے جانے چاہئیں نا کہ ایک شخص کی ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پہ۔ یہاں سینئر ترین یا اس کے بعد دوسرے نمبر پہ ہونےبوالے جج کی پروموشن کا اصول واضع ہونا چاہئے 5۔ کیا وقت کا تقاضا نہیں کہ سپریم کورٹ میں موجود جونئیر جج جو سینئر جج صاھبان کا جائز حق سلب کرکے پروموٹ کئے گئے ہیں۔ ان جج صاحبان کی متعلقہ ہائ کورٹس میں واپسی کا بندوبست کیا جائے اور ان سے سینئر ججوں کو میرٹ پہ سپریم کورٹ میں لایا جائے۔ 6۔ اسی طرح سپریم کورٹ کو دہائیوں سے وہاں موجود زیر التوا کیسز کا جلد فیصلہ کرنے کے لئے بھی موثر حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ اور غیر ضروری سیاسی معاملات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ایسے معاملات کو سپریم کورٹ لانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنئ چاہئے۔ یقینا یہ سب معاملات فوری توجہ طلب ہیں اور ان سے چشم کشائ مزید مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ لہذا آپ کو اپنے ادارے کو مکمل غیرجانبدار اور عام عوام کے حصول انصاف کیلئے آخری دنیاوی امید بنانے کے لئے مزید سخت اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ آپ کو یقینی بنانا ہو گا کہ آپ کی سربراہی میں قائم آئینی ادارے کی خود مختاری و غیر جانبداری نا صرف برقرار رہے بلکہ اس کے فیصلوں کی بنیاد پہ اس کی توقیر میں آضافہ ہو اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب سپریم کورٹ کا ہر جج اہلیت، قابلیت، کردار اور انصاف پسندی کا منبع ہو۔ اپ کے ادارے میں عوام الناس کو عدل ہوتا نظر آئے۔ اس میں بھی کوئ شک نہیں اور تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جہاں عدل ناپید ہو جاتا ہے وہ معاشرے اور ملک نیست و نابود ہو جاتے ہیں آپ کے سامنے آنے والے ہر کیس میں آپ کی انصاف پسندی، بلا خوف و خطر، بلا رو رعائت انصاف کی فراہمی عوام الناس سے ڈھکی چھپی نہیں اسلئے اب عوام آپ سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ آپ پاکستان کی عدلیہ کے ڈھانچے میں وہ تمام ممکنہ تبدیلیاں کریں گے جو اسے دنیا کی بہترین عدلیہ کا درجہ دلوا سکیں۔