اسلام آباد ( انصارعباسی ) 9 مئی کے واقعات کے پس منظر میں عمران خان کا فیصلہ کہ وہ ملک کے بڑے وکیل رہنماؤں سے اپنی پارٹی کی قیادت کرائیں گے بیک فائر کر گیا ہے اور اب 8 فروری کے انتخابات کے لیے پارٹی کا پلان اے اور پلان بی فیل ہوگیا ہے۔
وکلا کی قیادت میں چلنے والی پی ٹی آئی کے لیے جو چیز زیادہ ندامت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ پلان اے اور پلان بی دونوں قانونی گراؤنڈز پر فیل ہوگئے ہیں۔
پلان اے یہ تھا کہ مقدمے کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑا جائے۔ پلان بی خفیہ رکھا گیا تھا اور کیونکہ بلا نہ ملنے کی صورت میں سامنے آنا تھا اور اس صورت میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پی ٹی آئی نظریاتی کے کارکنوں کے طور پر انتخاب لڑنا تھا جس کا انتخابی نشان ’ بلے باز‘ تھا۔
پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ ہار دیا کیونکہ یہ نہ صرف یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دائرہ اختیار نہیں تھا کہ وہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آئے۔
پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ میں اپنے کیس کا دفاع کر رہی ہے بلکہ پارٹی کے انٹرپارٹی انتخابات کی قانونی حیثیت کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہی ۔
پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے اس کے بجائے تسلیم کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں کچھ بے ضابطگیاں ہوئیں لیکن انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کو پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے پر سوال اٹھایا۔
سقم کے حامل انٹرا پارٹی انتخابات بھی اس وقت ہوئے جب پارٹی کی قیادت وکلا کے پاس تھی، ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے حال ہی میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے اور وہی معاملات چلارہے ہیں۔
انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسترد کر دیئے تھے کیونکہ قانونی کمی رہی اور الیکشن ایکٹ 2017 سے انحراف کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے پارٹی کے پلان بی کو بھی الیکشن کمیشن نے قانونی گراؤنڈ پر ختم کر دیا۔
ایک دن پہلے سپریم کورٹ کی دن بھر کی کارروائی کو محسوس کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی این کے لیے اپنی ٹکٹیں ریٹرننگ افسران کے پاس جمع کرائیں۔
میڈیا پرسنز سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمان شعیب شاہین نے کہا کہ پارٹی کارکن پی ٹی آئی این کے نام سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراسکتے ہیں۔ ریٹرننگ افسران قانوناً پابند ہیں کہ وہ اس کے لیے ٹکٹ جاری کریں جس کے لیے پارٹی اپنے امیدواروں سے کہتی ہے۔
بعد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک آرڈر ایشو کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کچھ امیدوار اپنی درخواستوں کے ذریعے دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دوسری جماعت کا انتخابی نشان حاصل کیاجاسکے۔ اعلیٰ ترین الیکٹورل علامت کسی اور سیاسی پارٹی کا ہے۔
اعلیٰ ترین الیکٹورل باڈی نے ریٹرننگ افسران سے کہا ہے کہ وہ کسی اور پارٹی کا انتخابی نشان کسی دوسرے امیدوار کو دینے سے گریز کریں۔ اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہر امیدوار الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے اپنے تعلق کی سند دینے کا پابند ہے۔
مزید برآں، ایک امیدوار ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا کارکن نہیں ہوسکتا۔
الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق جس پر الیکشن کمیشنر کے دستخط ہیں اس کے ذریعے پی ٹی آئی کے پلان بی کو بھی ختم کر دیا گیا کہ یہ مبینہ طور پر غیرقانونی ہے کہ ایک امیدوار دو سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی قیادت ایک بنیادی قانونی نکتہ نہیں جانتی کہ ایک امیدوار بیک وقت دو سیاسی جماعتوں کا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔