• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر ہمارے زیادہ تر سیاست دان نوجوانوں کے مسائل سے لا تعلق نظر آتے ہیں اور دوسری طرف نوجوان بھی سیاست سے دور بھاگنے لگے ہیں ۔ دونوں جانب سے اس لا تعلقی اور لا علمی کی کیا وجوہ ہو سکتی ہیں۔سب سے پہلے تو سیاست اور سیاست دانوں پر بات ہو جائے ۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ سیاست کیسے کہتے ہیں اور سیاست دان کی تعریف پر کون پورا اتر سکتا ہے؟۔ پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ نوجوانوں کے وہ کون سے مسائل ہیں جن سے سیاست دان لا تعلق اور لا علم ہیں؟

عام طور پر نوجوانوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست سے دور رہو جیسے کہ یہ کوئی چھوٹ کی بیماری ہے جو لگ جائے گی لیکن جب کوئی نوجوان یا کوئی بھی شخص یہ سوال پوچھتا ہے کہ ہمارے معاشرے کو اس طرح کیوں چلایا جارہا ہے تو یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی سوال ہے اور یہ سوال پوچھنا ہر نوجوان کا حق ہے ۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نوجوان سیاست سے دور رہیں تو اس کا مطلب ہے کہ نوجوانوں سے یہ سوال کا حق چھینا جارہا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں اچھی تعلیم کی مفت سہولتیں موجود نہیں تو اس پر سوال اٹھانا ایک سیاسی عمل ہے ۔

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کا مطلب کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہے، جلسے جلوس کرنا، سیاسی اجلاس میں شامل ہونا اور تقریریں کرنا ہی سیاسی عمل ہے ۔ دراصل سیاست اس سے کہیں زیادہ وسیع مطلب رکھتی ہے اور اس کے کئی پہلو یا شعبے ہیں ۔مثلاً معاشرتی نظم و نسق میں حصہ لینا یا اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا سیاسی عمل ہے ۔ ملک کے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اس پر عمل درآمد بھی سیاسی عمل کا حصہ ہے ۔سماج کی بہتری کے لیے کسی جماعت کا قیام اور منصوبہ سازی بھی سیاست کا حصہ ہے ۔ اپنے منصوبے عوام کے سامنے پیش کرنا ایک منشور بنانا اور اس منشور پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا یہ بھی سیاسی عمل ہے۔

جو لوگ بھی ان باتوں میں دل چسپی لیتے ہیں اور جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں وہ سیاسی عمل میں شامل ہوتے ہیں ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں سوال اُٹھانے پر اس کا جواب دینے کی بجائے سوال اُٹھانے والے کو ہی اٹھا لیا جاتا ہے ۔سیاسی عمل میں حصہ لینے والا ہر نوجوان سیاست دان نہیں بن جاتا ۔ سیاست دان اس کو کہا جاسکتا ہے جو تقریباً کُل وقتی طور پر سیاست میں منظم طریقے سے شامل ہو اور اس کے لیے کسی جماعت کا حصہ بھی ہو ۔ اچھا سیاست دان بننے کے لیے علمِ سیاسیات سے شغف رکھنا، اس کے اسرار و رموز سے واقفیت کے لیے سیاست پر کتابیں اور مضامین پڑھنے کے علاوہ تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کا شعور بھی ضروری ہے۔

ہمارے سیاست دانوں کی اصل مسائل سے لاتعلقی اور لاعلمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاست میں پیسے کا چلن بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ انتخابات پیسے اور اثررسوخ کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں عوام کے مسائل سے تعلق کی بنیاد پر نہیں ۔ اگر ہماری پارلیمان اور کابینہ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں معاشرے کے امیر ترین لوگ مثلاً جاگیر دار، زمین دار، سرمایہ دار اور جدی پشتی سیاست دان زیادہ نظر آتے ہیں اور اُن میں نچلے یا درمیانے طبقے کے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔

البتہ کبھی کبھی ہمیں نگراں کابینہ میں ایسے لوگ ضرور مل جاتے ہیں جن کا تعلق درمیانے طبقے سے ہوتا ہے مثلاً 2023 میں بننے والی نگراں کابینہ میں مرتضیٰ سولنگی، مدد علی سندھی، وصی شاہ جیسے لوگ شامل کیے گئے ہیں جو کسی طرح بھی طبقہ امراء سے تعلق نہیں رکھتے ۔ مگر عام طور پر پارلیمان میں ایسے لوگ کم ہی جگہ بنا پاتے ہیں ۔ ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو میں یہ شعور موجود تھا کہ وہ شیری رحمان، فرحت اللہ بابر، تاج حیدر جیسے کئی باشعور اور پڑھے لکھے لوگوں کو ایوان بالا میں لے کر آئیں ۔

اب ہم اس بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ نوجوانوں کے مسائل کیا ہیں ۔ ہم نوجوان کی تعریف میں پندرہ سے تیس برس کے لڑکے لڑکیاں شامل کرسکتے ہیں ۔

چلیں پہلے پندرہ سے بیس برس کی عمر کے نوجوانوں کی بات کرتے ہیں ۔ یہ وہ عمر ہے جس میں بچے دسویں جماعت پاس کرکے کالجوں میں داخلے کی تیاری کررہے ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں جو بچے اسکول میں داخلہ لیتے ہیں اُن میں آدھے تو پرائمری سے سیکنڈری یعنی ابتدائی سے ثانوی تعلیم کے دوران ہی اسکول سے باہر ہوجاتے ہیں ۔

اس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے ۔ ہمارے سیاست دان اس غربت سے لاعلم نہیں ہیں لیکن لاتعلق ضرور ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ زیادہ تر سیاست دان خود خوش حال اور امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے نوجوانوں کے مسائل سے لاتعلقی سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ سیاست دانوں کے اپنے بچے مہنگے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا غریب نوجوان اسکول سے آگے کالج کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔

غالباً اس کا تدارک صرف اس طرح ممکن ہے کہ یہ بات لازم کردی جائے کہ سیاست دانوں اور سول اور فوجی افسر شاھی کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے ۔ تمام اسکولوں کو قومی ملکیت میں لے کر ذوالفقار علی بھٹو نے اچھا قدم اٹھایا تھا لیکن اس کو بھی خود افسر شاھی اور سیاست دانوں نے ناکام بنادیا۔

پندرہ سے بیس سال کی عمر کے نوجوانوں کا دوسرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی طرح کالج میں داخلہ بھی لے لیں تو اُن کی کالج آمدرفت ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ایک تو پاکستان بھر کے کالجوں کی اپنی کوئی آمدورفت کی سہولت یا گاڑیاں اور بسیں وغیرہ نہیں ہوتیں جو نوجوان کو کالج لائیں اور واپس لے جائیں ۔

حتیٰ کہ اسلام آباد جو ملک کا دارالحکومت ہے بھی ہر سرکاری کالج کی بسوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ نوجوانوں کی آمدورفت کا مسئلہ حل کیا جاسکے ۔

سیاست دان اس مسئلے سے اس لیے لاعلم ہیں کہ خود اُن کے بچوں کو بڑی گاڑیوں میں اُن کے ڈرائیور نجی کالجوں تک آمدورفت کی سہولت فراہم کرتے ہیں ۔ یہی حال سول اور فوجی افسر شاھی کے بچوں کا ہے جنہیں زیادہ تر سرکاری گاڑیوں جیپوں حتیٰ کہ ٹرکوں میں کالج آمدورفت کی سہولت دی جاتی ہے ۔

اس کا ایک حل یہ ہے کہ ان سیاست دانوں اور عہدے داروں پر لازم کیا جائے کہ اُن کے بچے سرکاری ذرائع آمدورفت یا پبلک ٹرانس پورٹ کے ذریعے کالج جایا کریں گے ۔ اس کے بعد سیاست دان اور افسر شاھی اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکے گی اور اسے نوجوانوں کا یہ مسئلہ ہر حال میں حل کرنا ہوگا کیوں کہ خود اُن کے بچے متاثر ہوں گے۔

اس عمر کے نوجوانوں کا تیسرا مسئلہ سرکاری کالجوں میں با قاعدگی سے کلاسوں کا نہ ہونا ہے ۔ پورے پاکستان کے سرکاری کالج سوائے چند کالجوں کے اس طرح قائم ہیں کہ اُن میں کلاسیں شاذونادر ہی ہوتی ہیں ۔ دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں کا تو ذکر ہی کیا اگر آپ کراچی لاھور، فیصل آباد، پیشاور اور کوئٹہ کی سرکاری کالجوں میں ہی کسی دن چلے جائیں تو وہ زیادہ تر ویران نظر آئیں ۔کچھ اساتذہ اپنے کمرے میں چائے سموسے کھا رہے ہوں گے اور کچھ طالب علم ادھر اُدھر گھوم رہے ہوں گے ۔ اگر اساتذہ سے پوچھا جائے کہ کلاس کیوں نہیں ہورہی تو وہ کہیں گے کہ طالب علم کلاس میں نہیں آتے اور طالب علم کہیں گے کہ ہم تو جاتے ہیں مگر کوئی استاد کلاس میں نہیں آتے۔ 

اس طرح زیادہ تر نوجوان ٹیوشن پڑھ کر امتحان دیتے ہیں ۔اس مسئلے سے بھی سیاست دان اور افسر شاھی دونوں لاعلم نہیں ہیں ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سرکاری کالجوں کا کیا حال ہے لیکن کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی جاتی کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے اور اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ اگر دو چار طالب علم بھی موجود ہوں تو کلاس لینا ضروری ہے ۔کالج کے پرنسپل بھی ذمہ دار ہیں جو تعداد بڑھانے کے لیے داخلے تو دے دیتے ہیں تاکہ کالج بند نہ کردیا جائے لیکن کوئی موثر قدم نہیں اُٹھاتے۔

نوجوانوں کا ایک اور بڑا مسئلہ سیر و تفریح کے مواقع کا نہ ہونا ہے ۔ پورے پاکستان کے طول و عرض میں چلے جائیے آپ دیکھیں گے کہ کالجوں اور کالجوں کے باہر بھی تفریح اور غیر نصابی سرگرمیوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کھیل کے میدان یا تو ہیں نہیں اور اگر ہیں بھی تو اُن کی حالتانتہائی خراب ہے۔ 

دھول مٹی سے اٹے ان میدانوں میں کوئی ڈھنگ کا کھیل نہیں کھیلا جاسکتا سوائے کبڈی اور ملاکھڑے کے ۔اسی طرح فنون لطیفہ سے متعلق سرگرمیاں بھی کالجوں میں تقریباً ختم ہوگئی ہیں جہاں ادب و ثقافت بھی ختم ہورہے ہیں اور رقص و موسیقی یا ڈرامے کو تو بھول ہی جائیے ۔ ایک تقریری مقابلے رہ گئے ہیں جن میں وہی گھسے پٹے موضوعات دو قومی نظریے پر موشگافیاں اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔

ہمارے سیاست دان اس سے بھی لاتعلق ہیں کیوں کہ اُن کے اپنےبچوں کو تمام غیر نصابی سرگرمیوں کی سہولتیں وافر میسر ہیں ۔ ان کے بڑے اسکولوں میں سیر و تفریح کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور ڈرامے بھی کیے جاتے ہیں ۔ گو کہ رقص و موسیقی جو ہماری ثقافت کا لازمی حصہ رہا ہے اب اسے نجی کالجوں سے بھی نکالا جاچکا ہے کیوں کہ قدامت پرست عناصر اب ہر چیز پر حاوی ہوچکے ہیں۔

اب ذرا بیس سے پچیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی بات ہوجائے ۔ اس عمر لڑکے لڑکیاں یا تو جامعات میں پڑھ رہے ہوتے ہیں یا پھر روزگار کی تلاش میں بھٹک رہے ہوتے ہیں ۔ جامعات میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کے مسائل میں غالباً سب سے بڑا مسئلہ اُن کے نصاب کا دورِ جدید کے لیے موزوں نہ ہونا ہے ۔زیادہ تر جامعات ایسے نصاب پڑھاتی ہیں جو دنیا میں متروک ہوچکے ہیں یا جن کی روزگار کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ 

پھر لازمی مضامین کے طور پر ایسے موضوعات کو شامل کردیا گیا ہے جن سے بچوں کو زیادہ محب وطن اور مزید انتہاپسندی اور تنگ نظری کی طرف دھکیلا جاتا ہے ۔ کس سے یہ بچے بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہیں اور معاشرے میں کوئی مثبت پیداواری کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔آج کل جو انتہاپسندی ہمیں نوجوانوں میں نظر آتی ہے اس کا ایک مظاہرہ حال ہی میں جڑانوالہ میں ہوچکا ہے ،جس میں توڑ پھوڑ کرنے والے زیادہ تر نوجوان ہی تھے۔ 

ہمارا تعلیمی نظام ایسے نوجوانوں کو بردباری اور برداشت کی تربیت دینے کی بجائے مزید عدم رواداری کی طرف دھکیلتا رہا ہے جس سے یہ نوجوان بُری طرح متاثر ہوچکے ہیں اور اب ان کو اس دلدل سے سے نکالنا آسان کام نہیں ہوگا جب تک ٹھوس اقدام نہ کی جائے ۔سیاست دان جامعات کے متروک نصابوں اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی سے لاتعلق اس لیے ہیں کہ اُن کے اپنے نوجوان بچے بچیاں زیادہ تر بیرون ملک بھیج دیے جاتے ہیں اور جہاں سے وہ جدید ترین علوم حاصل کرکے واپس آتے ہیں یا وہیں کے ہو رہتے ہیں ۔

جن سیاست دانوں کے بچے ملک میں پڑھتے ہیں وہ بھی مہنگی ترین نجی جامعات میں داخل ہوتے ہیں جہاں کے نصاب نسبتاً بہتر ہوتے ہیں اس لیے زیادہ تر سیاست دان سرکاری جامعات سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو اس سلسلے میں کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ظاہر ہے ہمارے وزراء تعلیم چاہے صوبائی سطح پر ہوں یا وفاقی سطح پر مجموعی طور پر نوجوانوں کے اصل مسائل پر توجہ نہیں دیتے جس کی بڑی وجہ غالباً وسائل کی کمی بھی ہے کیوں کہ نئے نصاب کی تیاری کے لیے اچھے ماہرین کی ضرورت ہوگی جن کو اچھا معاوضہ دینا پڑے گا اس لیے سیاست دان اور وزراء تعلیم اپنے محدود بجٹ میں ایسی سرگرمیاں کرتے ہیں جن سے مسلے حل نہیں ہوتے۔

مثلاً تحریک انصاف کی حکومت میں یکساں قومی نصاب کا ڈرامہ رچایا گیا جس کو نون لیگ کی حکومت نے بھی نام بدل کر جاری رکھا ۔ جب کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب وفاقی سطح پر اس طرح کے نصاب کی تیاری صرف وقت اور وسائل کا زیاں ہی تھا مگر ایسا ہی کیا گیا۔

بیس سے پچیس برس کہ وہ لڑکے لڑکیاں جو بوجوہ جامعات میں زیرِ تعلیم نہیں اُن کا بڑا مسئلہ روزگار کی تلاش ہے،اس خاص قسم کی کارآمد مہارتوں اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو چھوٹی مدّت کے تربیتی کورس یا پروگرام کرائے جائیں جن میں کمپیوٹر کی مہارتوں کو سرفہرست رکھا جائے لیکن سرکاری سطح پر ایسے ادارے ہیں ہی نہیں جو پورے ملک میں چھوٹے بڑے شہروں میں انگریزی زبان پر عبور اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کے لیے نوجوانوں کو تیار کرسکیں۔

نون لیگ کی حکومت نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دے کر اچھے قدم اُٹھا رہی تھی، مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اس میں رخنہ ڈالا ۔ اب نگراں حکومت کے قیام کے بعد اس منصوبے کا مستقبل بھی غیر یقینی نظر آتا ہے ۔سیاست دان اس مسئلے سے اس لیے لاعلم ہیں کہ خود اُن کے بچے جدید ترین لیپ ٹاپ خرید کر استعمال کرسکتے ہیں اس لیے انہیں درمیانے اور نچلے طبقے کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے ادارے قائم کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ 

اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے کہ حکومت ہر نوجوان کو روزگار کی مہارتیں فراہم کرنے کی پابند بنائی جائے ۔پچیس سے تیس برس کی عمر کے نوجوان زیادہ تر اپنی تعلیم مکمل کرچکے ہوتے ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں، اس عمر میں جوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا حصول ہے ۔ اس مسئلے سے سیاست دانوں کی لاتعلقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھڑادھڑ کئی یونی ورسٹیاں تو بنائی جاتی ہیں لیکن جہاں یہ جامعات کام کرتی ہیں وہاں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

اب تو چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی جامعات قائم کی جارہی ہیں جس کا اندازہ گزشتہ اسمبلی کے آخری دنوں میں منظور ہونے والے جامعات کے قوانین سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اسمبلی کے ارکان خود اس کاروبار میں ملوث ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خود اپنی یا اپنے خاندان کی جامعہ ان کے لیے کئی مالی وسائل پیدا کرنے کا باعث ہوگا ۔ اس کا تعلیم یا علم کے فروغ سے رابطہ کم ہی نظر آتا ہے۔ اس وقت ملک میں ڈھائی سو سے زیادہ جامعات پہلے سے ہی کام کررہی ہیں اس لیے مزید جامعات کے بجائے روزگار کے مواقع پیدا کرکے نوجوانوں کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

اس سلسلے میں نوجوانوں کو فنّی اور تیکنیکی ہنر سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے ۔ لیکن شاید ہی کوئی ایسا سیاست دان جس نے اس طرف توجہ دی ہو اور فنّی اور تیکنیکی ادارے قائم کرنے دل چسپی لی ہو ۔سیاست دانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں نوجوانوں سے روابط بڑھانے اور صرف اُن کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کی بجائے اپنے حلقوں میں لازمی طور پر ایسے ادارے قائم کرنے چاہئیں جہاں نوجوان روزگار کی مہارتیں حاصل کرکے کام کرنے کے قابل ہو سکیں ۔اس سلسلے میں بیچلرز یا ماسٹرز کی اسناد ضروری نہیں بہت سے ممالک نے اپنے تعلیمی نظام میں فنّی اور تیکنیکی اداروں کا جال بچھا رکھا ہے جہاں سے تربیت یافتہ کاریگر نکلتے ہیں۔

ہمارے یہاں یہ حال ہے کہ ہمارے نوجوان الیکٹریشن بنتے ہیں وہ خود غیر رسمی طور پر کسی کے ساتھ چھوٹے کا کردار ادا کر کے کام سیکھتے ہیں اور ہمارے ادارے جو ایسوسی ایٹ انجینئر کے ڈپلومے دیتے ہیں اس کی بدولت وہ صرف تھیوری جانتے ہیں لیکن کام نہیں کر سکتے ۔پچھلے دنوں ایک خبر آئی تھی کہ ایک انجینئرنگ یونی ورسٹی میں بجلی کا جنریٹر ٹھیک کرنے کے لیے ایک ٹیکنیشن کو بلانا پڑا جس کی دکان پر کوئی سند یافتہ لوگ نہیں تھے مگر انہوں نے آکر جنریٹر ٹھیک کیا ۔اگر یہ خبر درست ہے تو اس میں ایک شرم ناک سبق پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ ہمارے تیکنیکی ادارے ایسے ماہر تیار نہیں کررہے جو عملی میدان میں کام کر کے روزی کما سکیں۔

سیاست دانوں کی نوجوانوں کے مسائل سے لا علمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک موثر سیاسی نظام میں جمہوریت کو چلنے دیا جاتا ہے یعنی اس میں ہر سطح پر تنظمیں کام کرتی ہیں جن سے نوجوانوں کی سیاسی تربیت ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں طلبا تنظیموں لے کر مزدوروں اور کسانوں کی انجمنوں تک ہر تنظیم اور یونین کو پابندیاں لگا کر ختم کر دیا گیا ہے اس میں ریاست نے کچھ فائدے حاصل کیے لیکن سیاسی اور جمہوری روایات کا نقصان ہوا ۔ جن ملکوں میں سیاسی نظام کو بلا رکاوٹ چلنے دیا جاتا ہے وہاں طلبا اور مزدور تنظیوں سے ہی اچھے سیاست دان تربیت پا کر سیاسی میدان میں داخل ہوتے ہیں۔

درمیانے طبقے کے پیشہ ور لوگ جن میں وکیل، اساتذہ اور نچلے طبقے کے مزدور کسان اپنی تنظیموں سے نکل کر سیاست دان بنیں گے تو انہیں نوجوانوں کے مسائل کا زیادہ علم ہوگا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کی گاڑی کو بار بار پٹری سے اتارنے کے باعث نوجوانوں کے لیے سیاسی عمل میں حصہ لینے کے مواقع مفقود ہوتے چلے گئے ۔ جنرل ضیا الحق فرمایا کرتے تھے کہ میں اس ملک سے سیاست کا زہر ختم کر دوں گا اور جسے وہ زہر کہتے تھے وہی تو تریاق تھا اس ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کا لیکن اسے تباہ کر دیا گیا۔ سیاست دان اس میں بھی دل چسپی نہیں لیتے کہ بیرون ملک ملازمت کے مواقع کے لیے مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی تربیت کی جانی چاہیے۔ 

مثلاً جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا میں فنّی اور تیکنیکی کاموں کے علاوہ پیرا میڈیکل اسٹاف کی شدید ضرورت ہے جس کے لیے پاکستان میں نرسنگ اسکول اور کالج بڑی تعداد میں کھولنے چاہئیں جہاں سے تربیت لے کر ہمارے نوجوان باہر جا کر کام کرسکیں ۔آغا خان نرسنگ اسکول کے تربیتی یافتہ طلبا و طالبات بہت بڑی تعداد میں ملک سے باہر جاتے ہیں اور اچھے مشاہرے پر کام کرتے ہیں۔ 

اس وقت ہمارے نوجوان کشتیوں میں سوار ہوکر سمندر کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اُن میں سے زیادہ تر کسی مہارت کے حامل نہیں ہوتے اور وہاں پر چھوٹے موٹے کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ۔اس لیے سیاست دانوں کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے انتخابی منشور میں گول مول باتوں کے بجائے ٹھوس اقدامات کا وعدہ کرنا چاہیے، جس سے نوجوانوں کو اپنے مسائل حل کرنے میں مدد ملے نہ کہ وہ تشدد کی طرف مائل ہوں یا ڈپریشن میں چلے جائیں ۔

مسائل کے باعث ہمارے جوان اور بچے گھناؤنے جرائم کا شکار ہورہے ہیں اور کچھ تو خود ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ سیاست دانوں کو سب سے پہلے تو خود اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کو فروغ دیتے ہوئے نوجوانوں کی ذہنی اور فکری تربیت کا انتظام کرنا چاہئے۔ آج کل سیاسی جماعتیں صرف اپنے اپنے عظیم رہ نماؤں کے اقوالِ زریں دہراتی رہتی ہیں ۔ اگر کوئی نشست ہوتی بھی ہے تو اس میں بھٹو، نواز شریف، قائد تحریک یا عمران خان کی مدح سرائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ ہر سیاسی جماعت کو نوجوانوں کے لیے ایک واضح اور قابل عمل حکمت عملی بنانی چاہئے اور اپنے جھوٹے وعدوں سے گریز کرنا چاہئے کہ جیسے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دے دی جائیں گی۔

ایک زیادہ قابل عمل اور حقیقت پر مبنی حکمت عملی ہی نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے سیاست دانوں کی مدد کر سکتی ہے ۔