’’ طبِ یونانی‘‘ یا’’ حکمت‘‘ کو ایک قدیم ترین طریقۂ علاج کہا جاتا ہے، جب کہ عظیم فلاسفی، بقراط کو اس کا موجد قرار دیا جاتا ہے، جن سے منسوب یہ قول معروف ہے کہ’’ قدرت ہی سب سے بڑی معالج ہے۔‘‘اِس طریقۂ علاج میں زیادہ تر امراض کے لیے نباتات کا استعمال کیا جاتا ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ عوام کے طبِ یونانی کی طرف رجحان میں کمی آئی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ تاثر ہے کہ اِس میں ہر بیماری کا علاج بہتر طریقے سے میسّر نہیں۔
حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ طبِ یونانی معدے، جگر اور پیٹ کے دیگر امراض کا بہترین علاج فراہم کرتا ہے۔ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں پرانے سے پرانے امراض سے چھٹکارے کے لیے بھی بہت سے آزمودہ نسخے موجود ہیں۔ بعض امراض میں تو ایلو پیتھک اور ہومیو پیتھک کے مقابلے میں طبِ یونانی زیادہ بہتر نتائج دیتا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کریں، تو یہاں طبِ یونانی کے پس منظر میں جانے کی ایک بڑی وجہ حکومتی سطح پر سرپرستی کا نہ ہونا بھی ہے۔اِسی رویّے اور نظر انداز کرنے کی پالیسی کے سبب ایک بے مثال، قدیم اور مجرب طریقۂ علاج سے عوام محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں79 فی صد لوگ آج بھی علاج کے لیے طبِ یونانی ہی سے استفادہ کرتے ہیں، جو اِس کی افادیت کا ایک واضح ثبوت ہے۔یہ طریقۂ علاج پاکستان میں ایک قانون’’ یونانی آئیورویدک اینڈ ہومیو پیتھک پریکٹیشنرز ایکٹ 1965ء‘‘کے تحت باقاعدہ منظور شدہ ہے اور اِسی ایکٹ کے تحت’’ نیشنل کونسل فار طب‘‘ اور’’ نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھک‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ماہرین نے طبّی تعلیمی نظام وضع کیا، جس کے بعد مُلک بَھر کے کوالی فائیڈ اطباء کی نیشنل کونسل فار طب کے تحت رجسٹریشن کی گئی۔اِن دنوں پاکستان کے معروف معالج اور طبّی محقّق، حکیم محمّد احمد سلیمی نیشنل کونسل فار طب کی صدارت پر متمکّن ہیں، گزشتہ دنوں اُن سے پاکستان میں طبِ یونانی کی تعلیم، وسعت اور مسائل سے متعلق ایک خصوصی گفتگو ہوئی،جس کی تفصیل روزنامہ’’ جنگ‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
حکیم محمد احمد سلیمی نے میٹرک اور انٹر میڈیٹ جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولنگر سے اور طب کی تعلیم لاہور میں قائم طبیہ کالج انجمن حمایتِ اسلام سے حاصل کی۔بعدازاں، مقامی یونانی ادویہ ساز ادارے سے بہ طور حکیم پریکٹیشنر منسلک ہوئے اور گزشتہ26 سال سے اُسی ادارے میں بہ طور پبلیکشن مینیجر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، ادارے کی تاریخ اور طب سے متعلق کئی کتابوں کے بھی مصنّف ہیں۔ ’’ہینڈ بُک فار فیملی‘‘،’’مشعل ِراہ‘‘ اور’’ میرا مطب‘‘ کے نام سے اُن کے کتابچے طلبا و طالبات کو طب اور مطب سے متعلقہ قوانین، قوائد و ضوابط کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں۔ایک کتابچہ انگریزی زبان میں’’ Unani medicine an Ethical trusted and scientific treatment ‘‘ کے نام سے بھی ہے ۔
س: طبِ یونانی کے بارے میں تفصیل سے بتائیں؟
ج: طبِ یونانی ایک قدیم ترین طریقۂ علاج ہے۔ اس کا آغاز یونان سے ہوا۔اس طریقۂ علاج کو مرتّب کرنے میں سقراط، بوعلی سینا، جالینوس، زکریا رازی اور دیگر سائنس دانوں کے نام قابلِ ذکر ہیں۔انہوں نے شبانہ روز محنت کے بعد طبِ یونانی کے قواعد وضوابط مدوّن کیے اور تمام تر تحقیق کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، اِس نظام کی اصل بنیاد اسلامی دورمیں پڑی ۔نبی اکرم ﷺ کے دور میں عرب میں جو طب رائج تھی، وہ درحقیقت طبِ یونانی ہی تھی،جس کو ہم آج’’ طبِ اسلامی‘‘ یا ’’طبِ نبویؐ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ ایک قدرتی طریقۂ علاج ہے، جس کی بنیاد مزاج، اخلاط یا کیفیت پر ہوتی ہے۔مزاج چار ہوتے ہیں (سردی، گرمی، تری، خشکی )۔اِسی طرح اخلاط بھی چار ہوتے ہیں(بلغم، صفرا، سودا، خون)۔مزاج کی بنیاد کیفیت پر ہوتی ہے۔ طبِ یونانی یہ کہتی ہے کہ جب قدرتی نظام میں تبدیلی آتی ہے، تو وہ ہمارے مزاج اور اخلاط پر اثر انداز ہوتی ہے، جس کے باعث خرابی پیدا ہوتی ہے۔طبِ یونانی کے فلسفے کے مطابق ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اسبابِ ستہ ضروریہ ( 6 essentials )۔بیماریوں کے چھے بنیادی اسباب ہوتے ہیں۔
ہوا، کھانا پینا (جسے طب میں مفہول و مشہود کہتے ہیں )،حرکت و سکونِ بدنی، حرکت و سکونِ نفسانی، سونا اور جاگنا، احتباس و استفراغ کہتے ہیں۔ طب یہ کہتی ہیں کہ اگر ہم ان چھے بنیادی چیزوں میں اعتدال رکھیں، تو بیماری سے محفوظ رہیں گے۔ اگر ان میں کوئی کمی پیشی ہو جائے، تو پھر کوئی نہ کوئی بیماری جنم لیتی ہے۔ہمارے جسم میں بنیادی بیماری مزاج کی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے، یعنی جب مزاج میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی بیماری جنم لیتی ہے۔
س: طبِ یونانی اور علاج کے دیگر طریقوں میں کیا فرق ہے؟
ج: طبِ یونانی ایک فطری اور قدرتی طریقۂ علاج ہے۔اس میں ہر طرح سے علاج کیا جاتا ہے۔ ایلو پیتھک میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، علاج بالضد، اور ہومیوپتھک میں استعمال ہوتی ہے، علاج بالمثل، یعنی جس طرح کی علامات ہوتی ہیں، ویسا ہی علاج کیا جاتا ہے۔لیکن طبِ یونانی علاج بالمثل اور علاج بالضد دونوں ہے کہ اس میں دونوں طر یقے شامل ہیں۔ اس میں مریض کی کیفیت اور مرض کی نوعیت کے مطابق علاج کیا جاتا ہے۔طبِ یونانی مریض کی تمام نوعیت کے مطابق ایک طریقہ علاج مرتّب کرتا ہے۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ جب طبِ یونانی کے ذریعے علاج کروایا جاتا ہے، تو مرض کے ٹھیک ہونے کی رفتار سست ہوتی ہے،جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط تاثر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر مرض کی درست تشخیص ہوجائے اور دوا اس کے مطابق دی جائے، تو شفا ہوتی ہے اور مرض اپنے وقت پر ٹھیک ہوجاتا ہے۔ کئی امراض ایسے ہیں، جن کا علاج ایلو پیتھک میں صرف آپریشن ہے، لیکن طبِ یونانی میں ادویہ کے ذریعے ان کا علاج ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر پائلز(بواسیر) کا علاج طب میں بہتر طریقے سے ہوتا ہے۔
ایلو پیتھک میں اس کا علاج اوّل و آخر آپریشن ہے، جب کہ طبِ یونانی میں پائلز کے چار اسٹیجز میں سے تین تک ادویہ کے ذریعے بہترین علاج ہوتا ہے۔ کئی مزید امراض ایسے ہیں، جن کا علاج آج بھی ایلو پیتھک میں احسن طریقے سے نہیں ہوتا، جب کہ طبِ یونانی میں ان کا علاج فوری اور بہتر طریقے سے ہوتا ہے۔ یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ طبِ یونانی میں تین ذرائع سے علاج ہوتا ہے۔ پہلا نباتاتی ہے،جس کا استعمال80 فی صد ہوتا ہے، دوسرا معدنی (کیلیشیم ،میگنیشیم ،زنک، آئرن )اور تیسرا حیوانی ہے، یعنی جانوروں کے ویسٹ میٹیریئل سے تیارکردہ ادویہ استعمال کی جاتی ہیں۔ تینوں ذرائع میں قدرتی طور پر پائی جانے والی جڑی بوٹیوں کو دوا کے طور پر استعمال کیا جا تا ہے۔
س: کوئی ایسی بیماری جس کا علاج طبِ یونانی میں دیگر طریقۂ علاج کے مقابلے میں بہتر طریقے سے ہوتا ہو؟
ج: یہ امراض کی کیفیت پر منحصر ہے۔مرض کی نوعیت دو طر ح کی ہوتی ہے۔ایک ایکیٹو ( وہ بیماری جو اچانک رونما ہو)اور دوسری کورونک (وہ بیماری جو کئی سال پرانی ہو )۔دونوں کے علاج کے طریقے مختلف ہیں۔اگر کسی کو بخار ہے یا جسم کے کسی حصّے میں درد ہے، تو ا س کا علاج فوری طور پر کیا جائے گا۔بعض کورونک امراض کا، جنھیں مزمن یعنی پرانے امرا ض کہا جاتا ہے، علاج طبِ یونانی میں مکمل طور پر کیا جا تا ہے اور مرض کے پرانے ہونے کی وجہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ میٹا بولک سنڈروم (استحالہ کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض) یعنی ذیابطیس، کولیسٹرول کی زیادتی، ہائی بلڈ پریشر، کیلیشیم کی کمی یا زیادتی اور موٹاپا وغیرہ۔ اگر ان وجوہ کی وجہ سے مرض ٹھیک نہیں ہو رہا، تو پہلے اس کا علاج کیا جاتا ہے، پھر مرض کا باقاعدہ علاج کرتے ہیں۔ طبِ یونانی کو’’مدر آف میڈیسن ‘‘کہا جاتا ہے،کیوں کہ اس میں علاج کے تمام طریقے شامل ہیں۔
ویسے تو طبِ یونانی میں ہر مرض کا علاج موجود ہے، لیکن جو گیسٹرو انٹس ٹائنل ٹریک ہاضمے یا معدے، جگر اور پیٹ کے معاملات ہوتے ہیں، ان مسائل کا طبِ یونانی میں کام یاب علاج موجود ہے۔ علاوہ ازیں، مَیں نے جن امراض کے بارے میں پہلے بتایا اُن کا علاج بھی بہ خوبی کیا جاتا ہے ۔اس کے ساتھ میٹابولک سنڈروم (استحالہ کی خرابی ) کا علاج بھی دوسرے طریقۂ علاج کے مقابلے میں زیادہ بہتر طرح سے کیا جاتا ہے۔
س: کیا بدلتے زمانے کے ساتھ طبِ یونانی میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں ؟
ج: جی بالکل !جیسے جیسے ہم جدید دَور میں قدم رکھ رہے ہیں، طبِ یونانی میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ لوگوں میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ طبِ یونانی کا طریقۂ علاج وہی صدیوں پرانا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔اس میں وقت کے ساتھ ادویہ کی شکل بھی بدلی ہے اور طریقۂ علاج بھی تبدیل ہوا ہے۔ مرض کی نوعیت اور مریض کی ضرورت کے مطابق علاج میں تبدیلی لائی گئی ہے اور ادویہ کی مقدارِ خوراک میں بھی فرق آیا ہے ۔اگر پرانے زمانے کی بات کروں، تو پہلے لوگ رات میں جڑی بوٹیاں پانی میں بھگوتے تھے اور صبح اُٹھ کر اس کا قہوہ بنا کر پیتے تھے، جب کہ اب جو شاندے کا پیکٹ آتا ہے، اس میں سب شامل ہوتا ہے۔
ایک کپ گرم پانی میں شامل کرکے اسے پی لیں۔ پہلے حکیمی ادویہ کڑوی اور بدمزا ہوتی تھیں،جنھیں کھانا بہت مشکل ہوتا تھا۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے خمیارہ اور میٹھی ادویہ تیار کی گئیں۔ اگر مغلیہ دور سے دیکھا جائے، تو تب کے طریقۂ علاج اور آج کے طریقوں میں کافی حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔پہلے حکیمی علاج کئی سال چلتا تھا، مگر اب چند دن دوا استعمال کرنی پڑتی ہے۔
باقی طریقۂ علاج میں بعض امراض کا علاج میڈیسن یا سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے، لیکن طبِ یونانی میں علاج کے چار طریقے ہیں۔ ٭علاج َبالغذا ٭علاج بالدوا٭علاج بالتدبیر(Regimental Therapy) اور علاج بالید یعنی جراحی۔علاج بالتدبیر میں علاج کے 36 طریقے موجود ہیں۔مرض کی نوعیت اور مریض کی حالت دیکھتے ہوئے علاج کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
س: طبِ یونانی کی طرف عوام کے رجحان میں کمی کی کیا وجہ ہے؟
ج: اصل بات یہ ہے کہ ہم در آمد پر مبنی معاشرے میں رہتے ہیں،لہٰذا جو چیزیں ہمیں آسانی سے مل جاتی ہیں، انھیں اپنا لیتے ہیں، جس چیز میں خود محنت کرنی پڑتی ہے، اس میں ہماری دل چسپی کم ہی ہوتی ہے۔بد قسمتی سے پاکستان میں شروع سے بیرونِ ممالک کی چیزوں کا استعمال عروج پر رہا ہے،اِسی لیےہم اپنی نباتاتی چیزوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ کسی بھی چیز کی جانب رجحان ہونا اور رجوع کرنا دو الگ باتیں ہیں، اگر دیکھا جائے تو عوام کا آج بھی طبِ یونانی کی جانب جھکاؤ ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 79 فی صد لوگ یونانی ادویہ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں،مگر پاکستان میں مطب یا یونانی اسپتالوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ نیز، سرکاری سطح پر اسلامک انسٹی ٹیوٹ بنائے گئے ہیں اور نہ ہی طبِ یونانی سے وابستہ افراد کو سرکاری سطح پر سہولیات فراہم کی گئیں۔ عوام میں اِس حوالے سے شعور و آگاہی کی کمی بھی ایک اہم وجہ ہے۔
س: کسی بھی موذی مرض کا علاج طبِ یونانی میں بہتر طریقے سے نہیں ہوتا، یہ بات کس حد تک درست ہے؟
ج: یہ بات بالکل بھی درست نہیں۔طبِ یونانی میں موذی امراض کا بھی شافی علاج موجود ہے، بلکہ ان امراض کا بہت مؤثر علاج دست یاب ہے۔ نیم ہلدی دار ہلد شاہترہ چرائیتہ، افسنتین، رال وغیرہ ایسی جڑی بوٹیاں ہیں، جن سے موذی امراض کا کام یاب اور بہترین علاج کیا جاتا ہے۔
س: کیا طبِ یونانی کے ذریعے کیا گیا علاج مرض پر آہستہ اثر انداز ہوتا ہے؟
ج: یہ باتیں غلط العام ہیں۔طبِ یونانی میں مرض کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم، متعدی امراض acute infectious diseases کا فوری علاج ہوتا ہے۔ اسی طرح درد ہیضہ اور دیگر وبائی امراض کا زود اثر اور فوری علاج ہوتا ہے، مگر مزمن یعنی پرانے امراض کے علاج میں بہرحال وقت درکار ہوتا ہے۔
س: طبِ یونانی کی تاریخ بہت پرانی ہونے کے باوجود اِس کے زیادہ ترقّی نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
ج: جب کسی چیز کو سرکاری یا ریاستی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی، تو وہ کہیں نہ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔طبِ یونانی کے دیگر طریقۂ علاج کے مقابلے میں پیچھے رہ جانے کی ایک اہم وجہ یہی ہے۔اسے سرکاری سطح پر کبھی اہمیت دی نہیں گئی۔اگر ریاست اس نظام کی سرپرستی کرے، تو یہ بہت ترقّی کرسکتا ہے۔اب بھی دنیا کے 26ممالک میں طبِ یونانی رائج ہے۔
چین میں’’چائنیز میڈیسن‘‘ کے نام سے اور بھارت میں’’آیوش ‘‘کے نام سے یہ سسٹم موجود ہے۔ چین میں اس کی مارکیٹ ویلیو کئی ملین ڈالرز تک پہنچ گئی ہے، جب کہ بھارت میں اس کی الگ وزارت قائم ہے، جس میں یونانی، ایلوپیتھک، آیورویدک اور ہومیوپتھک تمام طریقۂ علاج شامل ہیں۔مگر اس میں سب سے بڑا حصّہ طبِ یونانی کا ہے۔طبِ یونانی صرف حکومت کی عدم سر پرستی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا، ورنہ اس میں کمی کوئی نہیں ہے۔
س: کیا مستقبل میں اس کی طرف لوگوں کا رجحان نظر آتا ہے؟
ج: جی بالکل !گزشتہ سالوں کی صورتِ حال دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ لوگوں کا طبِ یونانی کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔خاص طور پر کورونا،عالمی سطح پر آنے والے وبائی امراض کے بعد اینٹی باڈی ریززٹینس، دردکش ادویہ کے نقصانات کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر سائنس داں ان ادویہ کے نقصانات سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں،اسی لیے امریکا، چین، جرمنی، بھارت اور دیگر ممالک میں قدرتی ادویہ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
ان پر تحقیقات کا دائرہ بھی وسیع ہو رہا ہے۔اب پاکستان میں نجی طور پر کچھ جامعات میں طب کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور یہ جامعات طب کی تعلیم میں ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کروارہی ہیں۔یہ دیکھتے ہوئے اُمید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل میں طبِ یونانی کی جانب لوگوں کا رجحان بڑھے گا۔ پاکستان میں اس وقت طبِ یونانی کے پریکٹیشنرز کی تعداد سات ہزار سے زیادہ ہے۔