اسلام آباد (رپورٹ،عاصم جاوید) چیف جسٹس پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی ہرشہری کا بنیادی آئینی حق ہے ، معلومات موثر ہتھیار ہے، معلومات کے ذریعے سے ہی احتساب کاعمل شروع ہوتا ہے،عوام کے پیسے سے چلنے والا ہر ادارہ عوام کو جوابدہ ہے، کوشش ہوتی ہے کہ ہر اہم مقدمے کو براہ راست نشر کیا جائے تاکہ لوگ غلط فہمی کی بنیاد پر کوئی الزام نہ لگائیں، جبکہ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججز کو کبھی کسی تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے، اگر تنقید کرنے والا بھی اسی عدالت پر اعتماد کرے تو یہ عدلیہ کا امتحان ہے، تنقید ہر کوئی کرے لیکن عدلیہ پر اعتماد بھی کرے، جج کو بے خوف ہو کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا چاہئیں، 71ء میں میڈیا آزاد اور عہد کی خلاف وزی نہ ہوتی تو ملک دولخت نہ ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام ’’عدالتی رپورٹروں‘‘ کی تربیتی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معلومات ایک موثر ہتھیار ہے اور آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔ انہوں نے ورکشاپ کا انتظام کرنے اور ا نہیں بلانے پر سپریم کورٹ بار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ معلومات تک رسائی سے متعلق فیصلہ ویب سائٹ سے ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے ، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ کوئی ادارہ شہری کی درخواست پر اسے مطلوبہ معلومات نہیں فراہم کرتا تو وہ اسکی وجہ بیان کرے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے یہ پوچھا جاتا تھا کہ جو معلومات لینا چاہتا ہے وہ وجہ بتائے، لیکن ہم نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ عوام کے پیسے سے چلنے والے ادارے عوام کو جوابدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوںکے ذریعے عدالتی فیصلوں کی کارروائی عوام تک پہنچتی ہے، ایک امریکی جج نے کہا تھا سب سے اچھی جراثیم کش سورج کی روشنی ہے،بچپن میں والدہ کپڑے دھوپ میں ڈالتی تھیں جن سے جراثیم ختم ہوتے تھے ،میڈیا کے ذریعے دھوپ اور روشنی عوام تک پہنچتی ہے، مثبت روشنی دکھانے سے ہی معاشرہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ شہری کی حیثیت سے کسی بھی معلومات کا حصول آپ کا استحقاق ہے۔ انہوںنے کہا کہ معلومات تک رسائی کا قانون کہتا ہے کہ جو ادارے حکومت کے تابع ہیں وہ شہریوں کی درخواست پر انہیں معلومات فراہم کریں۔انہوںنے بتایا کہ عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کے فیصلے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لگادیئے جاتے ہیں۔
اب ہر شہری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے مطلوبہ مقدمہ کے حوالے سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم (عدلیہ)نے اپنا احتساب خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے،جب میں نے عہدہ سنبھالا تو اس سے قبل 4 سال تک سپریم کورٹ کے ججوں کی فل کورٹ میٹنگ تک نہیں منعقد ہوئی تھی،ہم نے ذمہ داری سنبھالتے ہی عدالت کی براہ راست کوریج شروع کروادی ہے،اب اہم مقدمات کی لائیو کوریج ہورہی ہے،لائیوکوریج کی تمام ججوں نے تائید کی ہے،میرے چارج سنبھالنے کے بعد سے 3ماہ کے دوران پانچ ہزار سے زائد مقدمات نمٹائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ کی پہلی سہ ماہی رپورٹ جاری کررہے ہیں،کوشش کررہے ہیں کہ کم وقت میں زیادہ مقدمات نمٹائے جائیں، پہلے کے مقابلے میں 850زائد مقدمات نمٹائے ہیں، اس ہفتے 504 مقدمات نمٹائے اور 337 نئے مقدمات دائر ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے سپریم جوڈیشل کونسل کو طریقے سے چلایا جائے،اگر ماضی میں سپریم جوڈیشل کونسل اپنا کام نمٹاتی تو اتنی شکایات جمع نہ ہوتیں۔انہوں نے کہا کہ وکلا کی تنظیم اور عدلیہ میں ایسا کوئی فرق نہیں ہے، جب ایک ہی ہدف ہے، ہدف یہ ہے کہ اچھے جج لگائے جائیں تو پھر ایک دوسرے کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں،ایک دوسرے کو اس نظر سے دیکھیں کہ ہمارا ہاتھ بٹانے آئے ہیں۔فاضل چیف جسٹس نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ صحافیوں کو حالِ دل تو نہیں سنایا،آخر میں شعر سنا دیتا ہوں، صحافیوں کو کہاں حال دل سنا بیٹھے؟ یہ ایک بات کئی زاویوں سے لکھیں گے۔