پروفیسر خالد اقبال جیلانی
عہدِ رسالت میں اسلامی سلطنت کی حدود محدود تھیں اور ان حدود میں عموماًوہی لوگ بستے تھے جن کی معاشرت و تمدنی زندگی ایک جیسی تھی۔ اس کے بعد جب اسلامی سلطنت کی حدود بہت بڑھ گئیں، نئی نئی فتوحات سے نئے نئے ممالک اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں اسلام کے زیرِ نگیں ہوئیں ، یورپ میں اندیس تک ، افریقہ میں مصر اور شمالی افریقہ تک اور ایشیاء میں ایشیائی ترکستان اور سندھ تک اسلام پھیل گیا۔ ان نئے نئے ممالک کے لوگوں کی معاشرتی اور تمدنی زندگی مختلف تھی۔ اس لئے نئے نئے تمدنی و معاشرتی ، سیاسی و قانونی مسائل اور بین الاقوامی معاملات سے اسلام کا سابقہ پڑا۔
اسلام کی سیاسی زندگی میں کئی مدو جزر آئے ، خیالات و جذبات کی نئی لہریں اور ان لہروں کی مخالف لہریں پیدا ہوئیں۔ ضرورت کے مطابق نئی بحثوں کے دروازے کھلے۔ دیگر اقوام کے علوم کے تراجم عربی زبان میں ہونے سے اسلامی معاشرہ بیرونی خیالات سے روشناس اور متاثر ہوا۔ اس لئے نئے معاملات کو نئے نئے زاویوں سے دیکھنے کا رجحان بھی پیدا ہوا۔
وسائل اور مسائل کی نئی نئی قسمیں پیدا ہوگئیں تو تابعین کے آخری عہد میں مفسرین و محدثین علماء و صالحین کی ایک جماعت نے امام ابو حنیفہؒ ،نعمان بن ثابتؒ کی قیادت میں قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر اس کے مقرر کردہ قوانین و حدود کے مطابق اسلامی شریعت کی تعبیر و تشریح پر مبنی ایک ایسا ضابطہ قانون وضع کیا جو ہر حال میں مفید ، ہر طرح مکمل اور ہر جگہ ہر ماحول و معاشرت میں قابلِ عمل ہو۔ جس کے بانی حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ ہیں۔
اس کام میں امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ اس وقت کے دیگر مقتدر ائمہ نے اپنی انتھک کوششوں سے نئے پیش آنے والے تمام واقعات کے متعلق ، جن کے بارے میں نہ قرآن پاک میں احکام تھے، نہ احادیث میں ان کے نظائر ملتے تھے۔ ان جیسے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے آزادانہ سوچ بچار سے فیصلے کئے اور انہیں باقاعدہ مدوّن کر دیا، جسے ’’فقہ اسلامی‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ فقہ زندگی کے تمام پہلوؤں ، مذہبی و دینی ، سیاسی و معاشرتی معاملات پرحاوی تھی۔اس میں عبادات کے علاوہ تمام دیوانی اورفوج داری امور، نیز انتظام حکومت، جنگی قوانین، آئینِ سلطنت اور بین الاقوامی قانون کی دفعات شامل تھیں۔ اس سلسلے میں جن چار ائمۂ کرام کے مذاہب فقہ کو بہت فروغ حاصل ہوا ان میں امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام مالکؒ شامل ہیں۔
ان چاروں مذاہب فقہ میں امام ابو حنیفہ ؒ کی شخصیت اور فقہ کو سب سے زیادہ قبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ آپ کے والد حضرت ثابتؒ بچپن میں حضرت علی ؓ کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علی ؓ نے ثابت اور ان کی اولاد کے لئے برکت کی دعا فرمائی اور حضرت علی ؓ کی یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ امام ابو حنیفہؒ جیسی محدث و فقیہ اور عابد و زاہد شخصیت پیدا ہوئی۔
آپ 80ھ میں عراق کے شہر کوفہ میں پیدا ہوئے، ضروری علم کی تحصیل کے بعد آپ نے کپڑے کی تجارت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، لیکن معروف تابعی بزرگ شیخ عامر شعبی کے مشورے پر امام ابو حنیفہ ؒ علم حدیث ،فقہ علم کلام اور دیگر مروجہ علوم حاصل کرنے کی طرف راغب ہوئے اور ان علوم دینیہ میں ایسا کمال پیدا کیا کہ علم و عمل کی دنیا میں ’’امام اعظم‘‘ کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بےشمار اساتذہ سے علم حاصل کیا اور حصول علم کے لئے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور شام کے متعدد سفر کیے۔
کوفہ آپ کے عہد میں فقہاء کا مسکن و مرکز اور گہوارہ تھا ۔امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں ’’ میں علم و فقہ کی کان کوفہ میں سکونت پذیر تھا اور اہل ِ کوفہ کا جلیس وہم نشین رہا۔ پھر فقہائے کوفہ میں سے ایک فقیہ حمادؒ کے دامن سے وابستہ ہو گیا‘‘۔ (تاریخ بغداد) امام ابو حنیفہؒ نے حماد بن ابو سلمانؒ کے حلقۂ شاگردی کا دامن تھامے رکھا۔ اُن ہی سے فقہ کا علم حاصل کیا اور جب تک حماد ؒ زندہ رہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ ان ہی سے وابستہ رہے۔ اپنے استاد کی وفات کے بعد آپ نے درس و تدریس کا آغاز کیا اور جو مسندِ تدریس آپ کے استاد کی وفات سے خالی ہو گئی تھی، اسےامام ابو حنیفہؒ نے زینت بخشی۔
امام ابو حنیفہؒ ہمیشہ دربار اور حکمرانوں سے دور رہے اور کبھی کوئی سرکاری منصب و عہدہ قبول نہیں کیا ،ہر چند کہ اس وجہ سے آپ کو قید و بند کی صعوبت اور بدترین تشدد و اذیت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ آپ نے اس سب سختی اور اذیت کے جواب میں ارشاد فرمایا ’’اگر امیر مجھے شہر واسط کی مسجد کے دروازے شمار کرنے کا حکم دے بھی تو میں اس کی تعمیل کے لئے تیار نہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر کسی کا قتل کرنے کا حکم صادر کرے اور میں اس پر مہر ثبت کروں۔ بخدا، میں ایسا نہیں کروں گا۔ ‘‘ اس حق گوئی اور جرأت و بے باکی پر جلاد آپ کو متواتر کئی روز تک کوڑے مارتا رہا۔ آخر ایک دن تھک ہار کر جلاد حاکم کوفہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’وہ شخص (امام ابو حنیفہ) تو جسدِ بے روح ہیں، مارنے سے اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حاکم نے کہا کہ کیا کوئی ان کو سمجھانے والا نہیں کہ یہ مجھ سے مہلت ہی طلب کریں تو میں دینے کو تیار ہوں۔ اس پر آپ نے مہلت طلب کی اور رہا ہوتے ہی مکہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ خلیفہ منصور نے بھی آپ کے ساتھ یہی سلوک کیا ۔
امام ابو حنیفہ ؒ جیسے حق گوئی و بہادر ی میں یکتا و یگانہ تھے۔ ایسے ہی اپنے علم و فضل میں یکتائے زمانہ اور منفرد تھے ۔ آپ کے علم و فضل کا اعتراف آپ کے دور کے تمام اہل علم نے کیا۔ مشہور عالم و فقیہ حضرت فضیل بن عیاضؒ آپ کے بلند مقام ِ علم اور سیرت و کردار کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’امام ابو حنیفہ ؒعبادت گزار، خاموشی کے عادی اور کم گو تھے۔ جب حلال و حرام کا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ سچی بات کہہ دیتے۔
حکمرانوں کے مال سے آپ کو نفرت تھی۔ (تاریخ بغداد) جعفر بن ربیع کا قول ہے کہ’’ جب فقہ کی کوئی بات دریافت کی جاتی تو آپ کھل جاتے اور ندی کی طرح بہنے لگتے۔‘‘ وکیع کہتے ہیں ’’ابو حنیفہ ؒبڑے امین ، بہادر تھے، اللہ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دیتے، اللہ کی راہ میں تلوار کے زخم بھی برداشت کر لیتے ۔ عبداللہ بن مبارک جیسے بلند پایہ محدث و فقیہ امام ابو حنیفہؒ کو ’’خلاصہ علم‘‘ کہا کرتے تھے۔
ائمہ اربعہ کی فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کو سب سے زیادہ قبولیت ہوئی ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معاملات کے عملی پہلو کو زیادہ پیش نظر رکھا گیا ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ لوگوں کو بے جاتنگی اور تکلیف سے بچایا جائے۔ اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ ؒنے ضرورت کے مطابق اجتہادو رائے سے کام لینے میں بخل نہیں برتا۔ عباسی خلفاء نے فقہ حنفی کو اپنی سلطنت کا قانون مان لیا اور اس کے بعد وہ وسط ایشیاء کی سلطنتوں، برعظیم پاکستان ہندوستان اور سلطنت عثمانیہ ترکیہ میں بھی یہی فقہ ان حکومتوں کا قانون رہی اور آج تک ان علاقوں کے مسلمانوں پر عبادات و معاملات میں فقہ حنفی ہی کے اثرات ہیں۔
امام ابو حنیفہ ؒکے تفقہ، استنباط مسائل پر سہل مزاحم کہتے ہیں کہ ’’امام ابو حنیفہؒ کے کلام کی خصوصیات یہ ہے کہ وہ ثقہ کو لیتے ہیں، برائی سے بھاگتے اور لوگوں کے معاملات پر نیز اس چیز پر جس پر لوگ استقامت کے ساتھ قائم ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے معاملات ٹھیک ہوگئے ہیں، نظر ڈالتے ہیں، وہ تمام مسائل کے حل کے متعلق قیاس کرتے ہیں، لیکن جب قیاس ٹھیک نہیں ہوتا، تو جب تک استحسان سے کام چلتا ہے، استحسان سے کام لیتے ہیں۔‘‘
امام ابو حنیفہ ؒ کو بڑے قابل شاگرد ملے۔ ان میں امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ ، امام زفرؒ بہت مشہور ہوئے۔ مسائل کے حل کے لئے امام ابو حنیفہؒ نے اپنے جیّد شاگردوں اور اصحاب کی ایک چالیس رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے اراکین میں قرآن و تفسیر ، حدیث و فقہ، آثارِ صحابہ و تابعین ، قرأت ، لغت، فلسفہ و کلام کے ماہرین شامل تھے۔ اس کمیٹی کو ہم آج کی اصطلاح میں ایڈوائزری کمیٹی یا ریفارمز کمیٹی بھی کہہ سکتے ہیں۔
امام صاحب کا زہد و تقویٰ بھی مثالی و بے نظیر ہے، کتاب و سنت کی تعلیم اور تدوین فقہ کے ساتھ آپ نے پوری زندگی زہد و تقویٰ ، خشیتِ الہٰی اور عبادت و ریاضت میں بسر کی۔ رات کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رونے، نوافل پڑھنے اور تلاوتِ قرآن میں گزارتے۔ آپ کی خشیت الہٰی اور تقویٰ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ خود فرمایا کہ دو افراد نے مجھے راستہ چلتے دیکھاتو ایک نے دوسرے سے یہ کہا کہ یہ ابو حنیفہؒ ہیں اور یہ پوری رات نوافل پڑھتے ہیں۔ جب میں نے یہ سنا تو اسی رات سے میں پوری رات نوافل اور عبادت میں گزارنے لگا ،حالانکہ اس سے پہلے میں آدھی رات سوتا اور آدھی رات عبادت کرتا تھا۔
اگر امام ابو حنیفہ ؒکے افکار کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک اصل حاکمیت صرف اللہ وحدہٌ لا شریک کے لئے ہے۔ انبیاء، اللہ کے نمائندے ہیں جو اس کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے۔ آپ کے نزدیک صحیح خلافت وہ ہے جو اہل الرائے لوگوں کے اجتماع اور مشورے سے قائم ہو، زبرستی قبضہ کر کے دباؤسے بیعت لینا جائز نہیں، آپ کے نزدیک حکم میں زور زبردستی اور بیت المال میں خیانت حکمران کو نااہل کر دیتی ہے۔ امام صاحب آزاد عدلیہ کے حامی تھے اور قاضی کے معاملات میں انتظامیہ کی مداخلت یا دباؤ کے قائل نہیں تھے۔ ایمان کی تعریف یہ فرمائی کہ ’’اقرار اور تصدیق کو ایمان کہتے ہیں۔ ‘‘ اسلام کے معنی اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے، تقدیر میں غور و خوض کرنے سے احتراز و اجتناب کرتے، قرآن کو اللہ کا کلام مانتے تھے مخلوق نہیں۔
آپ کا وصال 14رجب المرجب 150ھ میں ہوا ۔ آپ کا وصال ایک صدیق و شہید کی موت تھی۔ آپ نے وصال سے پہلے وصیت فرمائی کہ انہیں غیر مغصوب حلال و طیب زمین میں دفن کیا جائے اور اس زمین میں ہر گز دفن نہ کیا جائے جس کے غصب کرنے سے امیر متہم ہے۔ جب خلیفہ کو آپ کی اس وصیت کا علم ہوا تو وہ بولا کہ ’’مجھے ابو حنیفہؒ سے کون چھڑائے گا وہ زندہ ہوں یا مردہ‘‘ آپ کے جنازے پر پورا بغداد امڈ آیا۔ جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد پچاس ہزار تھی۔
٭…یحییٰ بن نصرؒ فرماتے ہیں: امام اعظم ابو حنیفہؒ اکثر رمضان کریم میں ساٹھ قرآن کریم کا ختم فرماتے تھے۔
٭…علامہ خطیب بغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: امام صاحب اپنی آمدنی سے مشائخ ومحدثین کی ضروریات پوری کرتے ، ان کی خوراک ،لباس اور جملہ ضروریات کی اشیاء انہیں خرید کر دیتے ۔
٭…آپ کے صاحب زادے حماد نے سورۃ الفاتحہ ختم کی تو ان کے استاد کو ایک ہزار درہم کا نذرانہ پیش کیا،ساتھ ہی فرمایا یہ (محض) عظمتِ قرآن کے اظہار کی وجہ سے ہے۔میرے پاس اس وقت اتنی ہی رقم ہے،اگر زیادہ ہوتی تو اس سے زائد کا ہدیہ دیتا۔
٭…ابراہیم بن عیینہ پر چار ہزار سے زائد قرض تھا، ان کے اعزہ نے باہم روپیہ جمع کیا، تاکہ قرضہ چکا سکیں۔ جب آپ کو علم ہوا تو تمام قرضہ اپنی جیب سے ادا فرمایا اور لوگوں کو ان کی رقم لوٹا دی۔
٭…اگر کوئی شخص تحفہ دیتا تو اس سے کئی گنا زیادہ لوٹاتے اور فرماتے کہ حضورﷺ نے فرمایا! جو شخص تمہارے ساتھ بھلائی کرے، اس کے ساتھ بھلائی کرو۔اگر (مالی) بھلائی نہ کر سکو تو (کم از کم) اس کی تعریف ہی کردواور فرماتے مجھے یہ حدیث انتہائی محبوب ہے۔