سیارہ زمین پر مختلف اقسام کے قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، جس میں بعض کا تعلق قابل تجدید (Renewable) وسائل سے ہوتا ہے یعنی یہ ایسے قدرتی وسائل ہوتے ہیں جو بار بار استعمال ہونے کے باوجود ناپید نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ایک قابلِ تجدید وسیلۂ زیرِ زمین ذخیرہ شدہ پانی کی ایک مستقل سطحِ آب کی صورت میں موجود ہے جسے ’’میزاب‘‘ (Water Table)کہتے ہیں، جس سے پانی صدیوں سے حاصل کیا جارہا ہے لیکن آج بھی اس کی سطح زمین میں ہر جگہ مختلف گہرائی میں موجود ہے، کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق آبی چکر، بارش کی مقدار اور دیگر ارضی عوامل کے تابع ہوتا ہے۔
بارش کے بعد پانی کی جو مقدار (15 فی صد) زمین میں جذب ہوتا ہے وہ کشش ثقل کے زیرِ اثر عموداً مٹی اور چٹانوں کے سوراخوں، دراڑوں، جوڑ اور رخنوں کے ذریعہ نیچے گذرتا چلا جاتا ہے لیکن گہرائی (تقریباً 70 کلو میٹر ) میں جاکر رک جاتا ہے ۔ مزید نیچے سفرنہیں کرسکتا، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عام طور پر اندرونِ زمین دو طرح کی چٹانی تہہ ہوتی ہیں۔
ایک تہہ کسی بھی سیال (تیلِ گیس، پانی) کو جذب کر کے اپنے اندر روک لیتی ہے اور کسی قسم کے پھیلاؤ یعنی نفوذ کا عمل نہیں البتہ چہار طرفہ دباؤ کی وجہ سے عمودی اور افقی رساؤ جاری رہتا ہے۔ اس قسم کی چٹانی تہہ کو غیر نفوذ پذیر یا غیر منسلک مسام دار تہہ یا چٹان کہتے ہیں جو کسی بھی سیال مثلاً پانی کو جذب کر کے حجم میں اضافہ کرتا ہے، کیوںکہ مسام غیر منسلک ہونے کی وجہ سے نفوذیت کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسی چٹانیں کسی بھی سیال کے لئے ذخیرہ اندوز چٹان کا کردار ادا نہیں کرسکتی لیکن سہولت کار کے طور پر اس کی موجودگی لازماً ہونی چاہیے۔
مثلاً رسوبی چٹان ’’شیل‘‘ جب کہ دوسری طرف موجود چٹانی تہہ اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے مثلاً ریت پتھر۔ اس کا شمار ایسی چٹان میں ہوتا ہے جو جذب شدہ پانی کو پورے چٹانی جسم کے اطراف تقسیم کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے زیرِزمین پانی گردش کرتے ہوئے پوری طرح سے سرایت ہوکر چٹانی تہہ کو پانی سے سیر شدہ کردیتا ہے یعنی جتنا پانی جذب ہونا تھا ہوچکا اب پانی کے سرایت کرنے کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اس طرح ان چٹانوں کے گرد سیر شدہ زون کی تشکیل ہوتی ہے، جس کے بالائی سطح کو ’’میزاب‘‘ کہتے ہیں جو اندرونِ زمین ہر جگہ مختلف گہرائی میں موجود ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ زمین کی سطح پر موجد تالابوں اور جھیلوں میں اتنا پانی نہیں جتنا کہ اندرونِ زمین ’’میزاب‘‘ میں موجود ہے جو قدیم دور سے کروڑوں انسان کی زندگی کا سہارا بنا ہوا ہے لیکن سائنسی شعور کے فقدان کی وجہ سے اس کے بارے میں معلومات بہت ہی محدود تھی اس وجہ سے ’’میزآب‘‘ کا استعمال نا ہونے کے برابر تھا صرف نہریں اور چشمے آبپاشی کے ذرائع تھے لیکن ’’ٹیوب ویل‘‘ کی ایجاد کے بعد صورتِ حال مختلف ہوگئی۔
اگر صرف پاکستان کی مثال لی جائے تو 56- 1953 کے دوران ’’ٹیوب ویل آبپاشی کا مؤثر ذریعہ بن گیا ،جس نے تیزی سے ترقی کر کے 95-1984 تک 40 فی صد رقبہ ٹیوب ویل کی مدد سے سیراب کیا جانے لگا۔ جب کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں شہری آبادی کے تقریباً ہر گھر میں بورنگ (Boring) کے ذریعہ میزاب سے پانی حاصل کیا جارہا ہے جو ناگزیر بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ ٹیوب ویل اور بورنگ زیرِ زمین کے حصول کا واحد منبع میزاب ہی ہے جو نہ صرف سیر شدہ زون کا بالائی سطح ہوتا ہے بلکہ زمین کے نیچے موجود پانی کا ایک لامتناہی زخیرہ بھی ہے۔ زیرِ زمین سیر شدہ زون کی تشکیل اور اس سے منسلک ’’میزآب‘‘ کا وجو د میں آنے کے بعد پانی کا مزید گہرائی میں جانے کا سفر تھم جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ گہرائی میں بتدریج اضافے سے پانی کو ان چٹانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اوپری وزن کی وجہ سے جکڑاؤ کے عمل سے دو چار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اس میں موجود مسام کی مقدار کم سے کم ہوتی جاتی ہے اور آخر کا معدوم ہوجاتی ہے، کیوںکہ ذرّات ایک دوسرے میں پیوست ہوکر مسام داری کو مکمل طور پر ختم کردیتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس قسم کی چٹانیں عام طور پر آتش اور متغیرہ چٹانوں کے اوپر ہوتی ہیں جو حتمی طور پر غیر نفوذ پذیر نوعیت کی ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پانی گہرائی میں جاکر مزید نیچے نہیں جاتا۔ گویا اوپر والی چٹان پوری طرح سے سیرشدہ ہوگیا۔
بالائی جانب سطحی تناؤ (Surface Tensiam)پیدا ہونے کی وجہ سے ’’میزآب‘‘ سے مزید پانی اوپر کی طرف بھی نہیں جاسکتا ’’بورنگ‘‘ کے دوران بورھول سے حاصل شدہ چٹانی نمونے کے بعد میزاب کی تخلیق کے بابط جو میکنیزم دستیاب ہوئے ہیں اس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ میزآب کے بالائی جانب ایک ایسا زون ہوتا ہے جہاں پر تمام رسوب یا چٹانی گذرگاہ مکمل طور پر پانی سے سیراب نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہوا بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ غیر سیر شدہ زون یا ایریشن زون (Areation Zone) کہلاتا ہے یہاں موجود پانی کو ویڈوزپانی (Vadose Water) کہتے ہیں۔
میزآب کے زیریں جانب ایک اور توسیع زون ہوتا ہے، جس کے تمام گذر گاہ اور مسام پوری طرح پانی سے لبریز ہوتے ہیں اسی وجہ سے اسے سیر شدہ زون کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس زون میں گہرائی میں اضافہ کے ساتھ چٹانی ذرّات ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے ہیں اور ان کے درمیان موجود مسام معدوم ہوتے جاتے ہیں اسی وجہ سے اس زون کا زیریں حصہ عام طور پر کچھ میٹر تک سیر شدہ ہوتا ہے۔
اس کے بعد پانی نیچے نہیں جاسکتا بلکہ بالائی جانب جمع ہوکر ’’میزآب‘‘ کی تشکیل کرتا ہے جہاں سے پانی مزید غیر سیر شدہ زون میں نہیں جاسکتا، البتہ نم ضرور ہوجاتا ہے، کیوںکہ’’میزآب‘‘ کے اوپر سطحی تناؤ کی وجہ سے ایک پانی کی باریک پٹی بن جاتی ہے جسے ’’شعری جھالر (Capillary Fringe) کہتے ہیں۔
غیر سیر شدہ زون کے زیریں جانب اور میزاب کے تھوڑا اوپر پانی کی کچھ مقدار شعری جھالر یا پٹی کے ذریعہ میزآب کےاوپر کھینچ جاتا ہے۔ (ٹھیک اسی طرح جیسے ٹشو پیپر کے کنارے کو پانی میں ڈبونے کے بعد نظر آتا ہے) شعری پٹی عام طور پر 1 میٹر سے بھی کم چوڑا ہوتا ہے لیکن باریک دانے دار رسوب میں اس کی موٹائی زیادہ ہوتی ہے جبکہ موٹے دانے دار رسوب میں پتلا ہوتا ہے۔
مثلاً ریت اور گریول۔ کسی بھی مخصوص مقام پر ’’میزآب‘‘ کی گہرائی کو معلوم کرنے کے لیے اس مقام پر میزاب کی بلندی معلوم کرنی ہوگی پھر اس جگہ زمینی بلندی (Land Elevation) سے اسے منہا کر کے میزآب کی گہرائی معلوم کی جاسکتی ہے۔
مثلاً اگر کسی مقام پر زمینی بلندی 150 فٹ ہے اور میزآب کی 104فٹ گویا میزاب کی گہرائی46 فٹ ہوگی، جس کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے، جس میں سب سے اہم اس علاقہ میں گذشتہ زمانے میں ہونے والی بارش کی مقدار، چٹان کی ڈھلوان اور نفوذیت پر ہوتا ہے بہت سارے مقام پر سطح زمین پر موجود نشیب ’’میزآب‘‘ سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔
اس صوت حال میں اس کا ذخیرہ شدہ پانی چشموں کی شکل میں باہر آجاتا ہے یا سطح پر موجود چشموں یا پھر جھیل یا دلدل میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے۔ سطح زمین پر بہت سارے چشمے کم بارش کے دوران بھی بہتے رہتے ہیں، کیوںکہ اسے میزاب کے پانی کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔
جہاں تک میزآب کے پانی کی حرکت کا تعلق ہے تو اگر اس کا موازنہ بہتے سطح پر بہتے ہوئے چشموں سے کیا جائے تو یہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتے ہیں یعنی میزآب کا پانی چشموں کے مقابلے میں بہت ہی سست رفتاری سے چٹانوں کے مسام کے توسط سے حرکت کرتا ہے۔ اور ہمیشہ کم دباؤ سے بلند دباؤ والے علاقوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔
اسی تعلق کو 1856ء میں ایک فرانسیسی انجینئر ڈارسی (Darcy) نے بین الاقوامی طور پر اجاگر کیا کہ جسں ولاسیٹی سے پانی حرکت کرتا ہے اس کا انحصار پانی کے ’’آبی ہیڈ‘‘ (Hydraulic Head) اور ان اشیاء کی نفوذ پذیری سے ہوتا ہے، جس کے اندر سے پانی گذر رہاہو۔
مجموعی طور پر ’’ڈارسی‘‘ کے قانون کے مطابق ’’میزآب‘‘ کے پانی کی حرکت کے دو پہلو خصوصی طور پر سامنے آتے ہیں آبی درجات (Hydraulic Gradient) جو میزآب کے ڈھلوان پر موجود دو مقام (Spots) کی بلندی اور ان دونوں کے درمیانی فاصلے پر ہوتا ہے دوسرا چٹانوں کی نفوذ پذیری کی نوعیت۔
آبی درجات اندرنی قوت رگڑ کے مقابلے میں ’’میزآب‘‘ کے پانی کو مسلسل حرکت میں رکھتا ہے۔ یہ حرکت پانی کے دباؤ اور بلندی میں فرق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیر شدہ زون کے بالائی جانب موجود پانی میزآب کے ڈھلوان سے نیچے کی طرف حرکت کرتا رہتا ہے۔
میزآب کا ڈھلوان زیرِ زمین ذخیرہ شدہ پانی کی ولاسیٹی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر میزآب کے پانی کی حرکت ’’آبی درجات‘‘ اور چٹانی ساخت کی نفوذیت پر ہوتا ہے۔ ایسی میزآب جو ایک بہت ہی نفوذیت والی فاریشن اور نسبتاً کھڑی ڈھلوان کے ساتھ موجود ہو تو اس کی رفتار کئی سوفِٹ یومیہ ہوسکتی ہے لیکن عام طور پر رفتار اس سے کم ہی ہوتی ہے۔ تیز بارش کے زمانے میں میزآب زمین کی سطح کے قریب آجاتا ہے جب کہ خشک موسم میں یہ سطح نیچے ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے پانی کی حرکت سست ہوجاتی ہے۔
سیر شدہ زون کے انتہائی زیریں جانب حرکت بہت ہی سست ہوجاتی ہے، کیوںکہ یہاں پر ڈھلوان کم ہوتا ہے۔ اگر میزآب آبی درجات، نفوذیت اور برجوریات (Topography) ہر لحاظ سے درست ہو لیکن اگر میزآب کی سطح ہموار یا کم و بیش اُفقی ہو تو ذخیرہ اندوزی پانی حرکت نہیں کرسکتا ہے۔ میزآب میں پانی کی رفتار کتنی تیز ہوگی، اس کا انحصار سیر شدہ زون میں موجود ذخیرہ اندوز چٹان اور دوسرے اجزاء کی گذرگاہ پر ہوتا ہے۔
اگر سیر شدہ جسم میں مسام بہت باریک ہوں گے تو پانی کی حرکت بہت سُست ہوگی۔ اگر سوراخ بڑے اور بہتر طور پر منسلک ہوں گے تو پانی کا بہاؤ زیادہ تیز اور معیاری ہوتا ہے۔ غیر نفوذ پذیر چٹان میں سے ایک سال میں محض کچھ سینٹی میٹرز پانی کا بہاؤ عمل میں آتا ہے لیکن بلند نفوذ اشیاء مثلاً گراویل یا پھر محلول زیادہ چونا پتھر میں100 یا ہزار میٹرز یومیہ ہوتا ہے (پلومہر، کارلسن) یہ حقیقت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ میزآب تجدیدی قدرتی وسائل میں سے ایک اہم وسیلۂ ہے لیکن چارج اور ریچارج (پانی کا سیرشدہ زون سے حصول اور نئے پانی کی شمولیت بالترتیب) کے درمیان توازن بر قرار نہیں رکھا گیا اور اس کابے دریغ استعمال کیا جا نے لگا یعنی کسی بھی ریاست کے ہر گھر میں بورنگ کا سلسلہ شروع ہوجائے اور صرف میزآب کے پانی پر گذر بسر کو ترجیح دی جائے تو پھر اس کے منفی اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔
مثلاً مغربی ٹکساس اور مشرقی نیو میکسیکو میں ’’اوگالالا‘‘ (Ogallala) میزآب کے ذخیرہ شدہ پانی کو پمپ سے بے حساب حاصل کرنے کی وجہ سے پچھلی صدی میں اس کی سطح30 میٹر نیچے چلا گیا ہے۔ یہی صورت حال جنوب مشرقی ایشیاء بشمول پاکستان میں بھی درپیش ہے۔
میزآب کی سطح نیچے جانے سے مراد یہ ہے کہ جہاں ’’بورنگ‘‘ ہوچکی ہے وہاں مزید گہرائی میں جاکر کھدائی کرنی ہوتی ہے، ساتھ ہی جب میزآپ کے پانی کا حصول بھاری مقدار میں جاری رہتا ہے تو بعض علاقوں میں دھنسنے (Subsidence) کا عمل منظر عام پر آیا ہے، کیوںکہ پانی جو چٹان اور رسوب کو متحد رکھتا ہے ایسی صورتِ حال میں اتحاد باقی نہیں رہتا۔ مثلاً میکسیکو شہر7میٹر اور کیلیفورنیا وادی کا ایک حصہ 9میٹر تک دھنس گیا ہے۔
اس قسم کے دھنساؤ کے عمل سے تعمیراتی بنیادیں شاہراہیں اور پائپ لائن بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ بہت زیادہ بورنگ کرکے پانی نکالنے سے جماؤ کا عمل (Compaction) ترابی مساداری کو ضائع کردیتا ہے۔ جو میزآب میں موجود سیر شدہ چٹانوں کو بالکل غیر سود مند بنا دیتا ہے۔ (پلومہر، کارلسن)۔
میزاب کے نیچے گرنے، دھنساؤ اور جماؤ جیسے مسائل کے سدِ باب کے لیے دنیا کو شاں نظر آتی ہے اسی وجہ سے مختلف ممالک میں مصنوعی ریچارج کا طریقہ رائج ہو رہا ہے، تاکہ قدرتی ریچارج میں اضافہ کیا جا سکے۔ سیلاب یا صنعتی اداروں کے پانی کو صاف کر کے سطح پر تقطیری تالاب کی شکل میں جمع کرتے ہیں، تاکہ زمین میں رساؤ کو بہتر بنایا جاسکے۔ مجموعی طور پر اس ضمن میں وسائل کے ضیاع کو روکنے کے ساتھ ساتھ پیداواری فنیات میں اضافہ کیا جائے، تاکہ قابلِ تجدید وسائل کی بقاء ممکن ہوسکے۔