• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمیرا بنت فرید

ہماری نسل نو آج مختلف شعبوں سے وابستہ ہے ۔ زمانہ طالب علمی میں قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے لیکن عملی زندگی میں جب قدم رکھتے ہیں تو یہی جوش و جذبہ معدوم ہوتا نظر آتا ہے مثلاََ ایک میڈیکل کا طالب علم ڈاکٹر بننے کے بعد کسی دور دراز پسماندہ علاقے میں تعینات کیئے جانے پر ہچکچاتا ہے کیونکہ اتنی محنت اور اخراجات کے بعد اس کے لئے وہاں اپنا مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔ 

ایسے نوجوانوں کی تعداد بہت قلیل نظر آتی ہے جو اپنی تمام تر توانائیاں اور کوششیں اپنی قوم و ملت کو بام عروج پر پہنچانے کے لئے صرف کریں۔ بیشتر نوجوانوں کی کاوشیں اپنی اور اپنےخاندان کے گرد گھومتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ انسان کی گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی اس کا اولین فرض ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں بھی ان کا کردار اہم ہے۔ دیکھا جائے تو اس میں سارا قصور نوجوانوں کا نہیں، ایسےکئ عوامل ہیں جو نوجوانوں کی اس راہ میں رکاوٹ کا باعث ہیں جن پر اگر توجہ دی جائے تو صورت حال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

خاندان کا کردار

خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ نسل نوکی تعلیم و تربیت میں والدین کا کردار اور گھریلو ماحول انتہائی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ پہلا ادارہ اور پہلا مدرسہ ہے، جہاں بچے اخلاق، اقدار، عادتیں اور روایات سیکھتے ہیں۔ یہاں بچوں کی منفی یا مثبت شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ 

تربیت ڈھنگ سے کی گئی ہو تو وہ ایک مثبت اور بہترین تبدیلی کا استعارہ بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ یہ تب ہی قوم و ملت کے لیے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں جب ان پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائےتو معاشرے کو سلجھے ہوئے با کردار افراد میسر آسکیں گے، جو کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کی اہمیت

خاندان کے بعد اہم کردار تعلیم اداروں کا ہوتا ہےکسی بھی ملک کے تعلیمی ادارے نوجوانوں کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اچھی تعلیم بہت ہی اہم ہے۔ کیوں کہ تعلیم ترقی کی کنجی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے نوجوانوں کے ذہنی ارتقاء کا اندازہ وہاں کی تعلیمی حالت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کلچر، تہذیب وثقافت اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہونی چاہیے لیکن افسوس ہم ابھی تک اس میں پیچھے ہیں۔

ریاست کی ذمہ داری

بہت سے نوجوان ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن انہیں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ملتا، جہاں دوسرے ہم خیال نوجوانوں کے ساتھ مشترکہ طور پر اپنی کوششوں کے ذریعے اپنے وطن کو استحکام بخش سکیں، کیونکہ کوئی بھی نوجوان چاہے جتنا بھی قابل ہو تنہا کوئی بھی کام احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتا۔ ایسی صورت حال میں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اداروں کے قیام عمل میں لائے، جہاں ایسے نوجوانوں کی رہنمائی کی جائے، ان کی مالی معاونت اور انہیں آ گے بڑھنے میں مدد دے۔

آج کا نوجوان قوم کے آنے والے کل کی صورت گری کرنے والا ہے، اس لیےان کو بھرپور مواقع دے کر ان کی ذہنی تجزیاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے، اگر ایسا ہو تو کیاوجہ ہے کہ پرجوش سرگرم نوجوان اپنی خدمات پیش کرنے میں پس وپیش سے کام لیں۔

صلاحیتوں کی تشہیر

اگر نوجوانوں کے کارناموں، ان کی خدمات کی قومی سطح پرتشہیر کی جائے، ان کی خدمات کو سراہا جائے تو اس طرح ان کی حوصلہ افزائی ہوگی اپنی صلاحتیوں کو مزید اُجاگر کریں گے نہ صرف جوش و ولولہ پیدا ہوگا بلکہ دوسرے نوجوانوں میں بھی آگے بڑھ کرجد وجہد کرنے کا جذبہ بیدار ہوگا۔

نوجوان بےشک اپنے مستقبل کے لئے جدوجہد کریں لیکن ایک مرتبہ قدم جمنے کے بعد، خود غرضی سے ہٹ کر ملک کے لئے بھی بے لوث ہو کرسوچیں۔ ترقی کا زینہ صرف اپنے لئے نہ چڑھتے جائیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کی افادیت کا باعث بھی بنائیں نوجوان، حکومت اور ادارے سب مل کر کام کریں گے، تب ہی ملک کے مسائل کا خاتمہ ہوسکے گا۔