ثنا کاشف
ایسی کوئی پریشانی نہیں ہے جو آپ کی راہ کی رکاوٹ بن جائے، یہ آپ کی سوچ ہے جو آپ خود پر یقین نہیں کرتے۔ آپ کو کچھ پانا ہے تو پھر خود کو مضبوط بنانا ہوگا۔ پیٹھ پر تھپکی چاہتے ہیں تو سخت اور طویل محنت کے لیے تیار رہیں ایک دن میں آپ اپنا کریئر نہیں بناسکتے چاہے آپ اپنا کام خود کریں یا کسی کارپوریشن کے لیے کریں، محنت، عزم، لگن اور کوشش ہی آپ کو وہاں پہنچائے گی جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔
اکثر نوجوان یہ امید لگا لیتے ہیں کہ میں نے محنت کی ہےکامیابی ضرور ملے گی، مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ،اس لیےآپ کے پاس دوسرا منصوبہ ہونا چاہیے، یعنی ایک میں کامیابی نہیں ملے تو دوسرا متبادل راستہ اختیار کر لیا جائے یہ نہیں کہ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔ حقیقت پسند بنیں، کیوں کہ ہر چیز پر ہماراکنٹرول نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تلاش کی جائیں اور ان کا مزہ لیا جائے۔
اکثر نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی محنت کی تعریف کی جائے کیوں کہ وہ والدین کی بے پناہ توجہ اور تعریفوں کے سائے میں بڑے ہوتے ہیں، لہٰذا اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ ہر کوئی اُن کے والدین کی طرح ہی یہ بات جانتا ہوگا کہ وہ کتنے زبردست ہیں، ایسا تب ہی ممکن ہے کہ جب آپ کے ارد گرد موجود لوگ آپ کے والدین کی طرح ہوں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
آپ نے ایسی کسی چیز پر کافی محنت اور وقت لگایا ہوگا جو کسی دوسرے کے نزدیک کافی عام بات ہو یا ہوسکتا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ آپ تعریف چاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی قابلیت، کامیابی اور کارکردگی کو نمایاں کرنے پر توجہ دیں ، کیونکہ لوگ تب ہی آپ کو جانیں گے جب آپ کچھ بہترین کر کے دکھائیں،بہت زیادہ تعریف کی توقعات نہیں کریں۔آپ صرف کام کرسکتے ہیں، نتائج آپ کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو خوش کرنے اور مایوسی کو کم کرنے کے لئے اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کریں، پھرجو کچھ بھی آپ کو ملتا ہے وہ آپ کا ’’بونس‘‘ ہے۔
والدین ہر مشکل صورتحال سے اپنے بچوں کو بچائے رکھتے ہیں، ان کے حصے کے کام بھی کرتے ہیں، اور ہر جگہ ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ آپ تب تک بڑے نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اس حفاظتی محبت کے درمیان گھرے رہیں گے، کیونکہ بڑے ہونے کے لیے کچھ سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اگر کوئی آپ کو ان سختیوں سے بچا رہا ہے، تو آپ زندگی کے تلخ حقائق کے بارے میں نہیں جان سکیں گے۔
والدین آپ کے مسائل حل کرنے کے لیے آپ کا ساتھ ہمیشہ نہیں دے سکتے۔ آپ کو اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے۔اگر آپ سپر ہیرو بننے کے لیے کسی مکڑی کے کاٹنے کا انتظار کر رہے ہیں تو ایسا مت کریں۔ زیادہ سے زیادہ خودانحصاری اختیار کرنی چاہیے اور والدین سے چوبیس گھنٹے توقعات نہیں رکھنی چاہیئں۔ ہاں البتہ اگر کوئی گنجلک معاملہ ہوتو ان سے رہنمائی ضرور لینی چاہیے۔
انسان خلاء میں نہیں زمین پر انسانوں کے بنائے ہوئے ماحول میں جنم لیتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ ہر نسل کو جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہ وقت اور ماحول کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں۔ موجودہ نسل اپنے سے پہلےلوگوں سے زیادہ معلومات رکھتی ہیں کیوں کہ اس تک رسائی ان کے لیے آسان ہے۔ موجودہ نسل خوش نصیب ہے کہ ان کہ پاس ٹیکنالوجی ہے۔ اس سے مثبت فائدہ اُٹھائیں۔ یہ جو دماغ ہے آپ کا ہے، اس لیے اسے آپ ہی کوکنٹرول کرنا ہوگا۔ وہ کام کیجئے جس سے آپ زندگی میں آگے بڑھیں۔
کامیابی کی بلندی پر پہنچنے کا کوئی خود کار زینہ نہیں، آپ کو زینہ بہ زینہ اوپر چڑھنا ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے۔ تن آسانی چھوڑ دیں، آسان راستہ ڈھونڈنا بند کریں کیوں کہ یہ ملنے والا نہیں۔ آپ کو پریشانیوں سے نبرد آزما ہونا چاہیے، درد جھیلنا چاہیے، مسترد کیا جانا کیا ہوتا ہے یہ پتا ہونا چاہیے، کیوں کہ جب تک آپ دردسے، پریشانی گزریں گے نہیں آپ کو بہتری کی ترغیب بھی نہیں ملے گی۔ ناکامیوں کو جھیل کر ہی آپ کی شخصیت نکھر کر سامنے آئے گی ، کیوں کہاُس وقت لگ رہا ہوتا ہے کہ بس اب زندگی ختم ہوگئی لیکن یقین جانیئے، ہر ناکامی میں کامیابی کا ایک راستہ ضرور پوشیدہ ہوتا ہے۔