ایم یونسؔ
وہ بچہ بہت چھوٹا تھا ، اس کی اتنی عمر نہ تھی کہ وہ کسی گاہک کو گرم گرم حلواپوری ، جلیبی، کچوری باندھ کر دے سکے۔ بچے کےجسم پر نہایت معمولی لباس تھا۔ وہ میلے کپڑے کئی کئی دنوں تک پہنے رہتا تھا ۔ جاڑا، گرمی ، برسات چاہے کوئی بھی موسم ہو اُسے علی الصباح اُٹھنا پڑتا تھا ۔میٹھائی بنانے والا باورچی تومنہ اندھیرے سے ہی حلوا پوری اور جلیبیاں تیار کر نے لگتا تھا، جیسے ہی کڑاہی میں حلوا تیار ہو جا تا تھا ۔ حلوائی اس بچّے کو چیخ چیخ کر اُٹھا دیتا، اگر وہ نیند کی غنو دگی سے اُٹھ نہیں پاتا تو حلوائی اسےمارتا تھا ۔
بچّہ آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ جاتا۔ اپنی آ نکھوں پر پانی ڈالتا پھر گرم گرم حلوے کی کڑاہی کے سامنے بیٹھ کر دکانداری کر نے لگتا تھا ۔ صبح صبح ڈیوٹی پر جا نے والے حلواپوری خرید کر کھاتے ہو ئے اپنے کاموں کی طرف روانہ ہو جا تے تھے۔ٹھنڈکے موسم میں بھی وہ اسی طرح جسم پر کوئی پتلی سی چادر لپیٹے ٹھٹھرا تا ہوا حلوا پوری بیچتا ہوا نظر آتا ، گرم گرم پوریاں اپنے نازک اور کومل ہاتھوں سے پکڑ کر کاغذ کےلفافے میں رکھتا۔ اکثر گرم پوریاں رکھتے ہوئے اُس کے ہاتھ جلنے لگتے تھے۔
جب اس کا ہاتھ جلنے لگتا تو وہ اپنی جلتی ہو ئی انگلیوں کو تیزی سے ہلاتا۔ ایک دن صبح اتفاق سے وہ بچّہ حلوائی کی دکان کے کنارے کھڑا رو رہا تھا ۔ اس بچّے کا مالک (حلوائی ) آج خود ہی حلواپوری ، جلیبیاں فروخت کر رہا تھا۔ ایک بزرگ جن کو سب دادا کہتے تھے،اُن کا وہاں سے روزانہ گزر ہوتا تھا وہ بچے کو دیکھ کر دکھی ہوتے تھے ،آج جب اسے روتا دیکھا تو حلوائی سے پوچھا کہ،’’ یہ بچہ کیوں رو رہاہے‘‘ ؟‘‘ اُس نے غصے سے کہا کہ’’ یہ صبح کو اُٹھنا نہیں چاہتا ، گاہکوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے اور یہ سویا رہتا ہے ، میں نے اس کی آج پٹائی کی ہے اور دکان سے بھگا دیا ہے۔‘‘ اُن کا دل بچے پر ہو نے والے ظلم پر آبدیدہ ہوگیا ، اُنہوں نے حلوائی سے کہا ’’بھائی ! یہ بچہ ہے، اس سے غلطی ہوسکتی ہے ، ابھی میں اس کو اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہو ں ،جب یہ رونا دونا بند کر دے گا تو میں اسے تمہارے پاس پہنچادوں گا ‘‘۔ حلوائی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
دادابچے کا ہاتھ تھامے اپنے گھرلے آئے۔ اُسے بہت منا کر چُپ کرایا۔ اس کا منہ دھُلایا ۔ ساتھ میں بیٹھا کرناشتہ کرایا،پھر اس سے پوچھا، ’’ بیٹا !تمہارے مالک نے تمہیں کیوں مارا ؟ ‘‘۔ ’’ دادا ! مالک، مجھے روزانہ صبح پانچ بجے اُٹھاتا ہے ، دن بھر کے کام سے میں تھک جا تا ہوں ، صبح صبح میری آنکھ نہیں کھُلتی ، میں ابھی بچہ ہوں نہ، بس اس لئے حلوائی چچا نے مجھے مارا اور دکان سے باہر نکال دیا، مجھے مار کھانے کا اتنا دکھ نہیں ہے جتنا دکھ میری ماں کو پیسے کم ملنے کا ہے ، میرے والد نہیں ہیں ، میں یتیم ہو ں ، میری دو چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں ، میں گائوں کے مدرسے میں پڑھتا تھا ، حلوائی چچا مجھے گائوں سے یہ کہہ کر لائے تھے کہ مجھ سے تھوڑا بہت کام لیں گے ، مجھے گھر میں کسی مولوی سے دینی تعلیم ولوائیں گے اور ماں کو ہر ماہ پیسے بھی بھیجیں گے۔ ‘‘
دادا نے اسے نئے کپڑے اور سوئٹرپہنوائے، پھر اپنے ساتھ اسکول لے گئے وہاں اس کا داخلہ کرایا ۔ یہ سب دیکھ کرچند لمحے اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن پھر وہ متفکر نظر آنےلگا۔ دادا نے پوچھا ،’’کیا تم پڑھنا نہیں چاہتے‘‘۔ بچے نے کہا،’’ نہیں ایسا نہیں ہے مجھے تو پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن مجھے کام کرنا ہے، تاکہ اپنی ماں کو پیسے بھیج سکوں۔‘‘ دادا نے کہا تم اس کی فکر نہ کرو میں تمھاری ماں کو رقم بھیج دوگا، بس تم دل لگا کر تعلیم حاصل کر و، میں سمجھوں گا مجھے رقم مل گئی۔بچہ خوشی سے دادا سے لپٹ گیا۔