اسلام آباد(فاروق اقدس/تجزیاتی جائزہ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی پنجاب میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نامزدگی کے فیصلے کو پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک کے میڈیا میں بھی اس لئے توجہ اور اہمیت ملی ہے کہ وہ اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی، ان کی اس نامزدگی کے فیصلے پر ان کےسیاسی مخالفین کی جانب سے کوئی قابل ذکر ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر بھی مخالفت برائے مخالفت کرنے کی ’’ذمہ داری‘‘ادا کرنے والے مخصوص اور محدود حلقوں نے بھی اس ضمن میں کسی روایتی طرز کے منفی رویوں سے گریز کیا لیکن یہ ’’کمی‘‘ انہوں نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی جگہ شہباز شریف کے وزیراعظم کی نامزدگی کئے جانے پر پوری کردی اور بعض سیاسی حلقے جن میں خود مسلم لیگ (ن) کے زعما بھی شامل ہیں اس فیصلے کے حوالے سے خدشات، تذبذب اور اضطراب کا شکار ہیں ،یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کو صورتحال کی وضاحت کرنے کیلئے اپنے کسی ترجمان کی بجائے خود سامنے آنا پڑا کیونکہ بعض حلقوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ یہ صورتحال بھی کم وبیش ’’مقبولیت اور قبولیت‘‘ سے مماثلت رکھتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ایک سنجیدہ اور بردبار شخصیت کے اس موقف کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جن کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح آصف علی زرداری بلاول بھٹو کو ملک کا وزیراعظم بنانے کی خواہش کا بار بار اظہار کرچکے ہیں اسی طرح اگر میاں نواز شریف بھی اپنی صاحبزادی کو اگر وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں تو اس پر کسی کو معترض نہیں ہونا چاہئے، اگر انہوں نے پی ڈی ایم کی حکومت میں بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنوا کر وزیراعظم بنانے کی تربیت دلوائی تھی تو پھر میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کرکے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب تک رسائی کی تربیت دے رہے ہیں تو اس میں کونسی غلط بات ہے، مذکورہ شخصیت کا دعویٰ تھا کہ امر واقعہ بھی یہی ہے۔دوسر ی طرف مولانا فضل الرحمان جنہوں نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ آئیں اور ہم مل کر اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں‘‘۔ مولانا فضل الرحمان ایک ذہین و فطین، معاملہ فہم ہونے کے ساتھ حالات واقعات کے تقاضوں کو دیوار سے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے سیاست دان ہیں۔ بادی النظر میں وہ پہلی مرتبہ اتنے جارحانہ انداز میں اعلانیہ طور پر سٹیبلشمنٹ سے الگ سوچ کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور میاں نوازشریف سمیت ان جماعتوں کو بھی جو انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں ساتھ چلنے کی دعوت دینے سے انہوں نے ایک نئے اشارے اور بحث کا آغاز کر دیا ہے، لیکن کیا صورتحال ایسی ہی ہے؟ جس کی طرف مولانا نے ایک ’’علامتی یا ملفوف‘‘ اشارہ کیا ہے۔