• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرا بیوی سے جھگڑا ہوا، ماضی میں بھی وہ مجھ سے جھگڑ کر اپنے میکے جاتی رہی ہے، اس بار اس نے کچھ ایسی بدتمیزی کی ،جس پر میں نے کہا: اگر اس بار بھی پہلے کی طرح ناراض ہوکر جانا ہے تو پھر واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے، میری بیوی کہنے لگی : آپ نے تو مجھے طلاق دیدی ہے ، میں نے کہا: طلاق نہیں دی اور نہ ہی میری نیت طلاق کی تھی۔ 

میرے سُسر نے مجھ سے پوچھا : تم نے طلاق دیدی ہے ، میں نے کہا: نہیں، انھوں نے کہا: ان الفاظ سے طلاق ہوجاتی ہے ، میں نے پھر کہا: یہ الفاظ میں نے کہے ہیں ،لیکن طلاق نہیں دی۔ 

معلوم یہ کرنا ہے کہ اس سے طلاق ہوئی یا نہیں ؟،نیز فون پر کوئی بات سنے چاہے وہ حقیقت ہے یا نہیں اور موقع پر کوئی پاس موجود نہ ہو تو کیا شرعاً اس کی گواہی قبول ہوگی یا نہیں؟،( تیمور احمد ، بیلجیم ،یورپ)

جواب: مفتی غیب نہیں جانتا بلکہ فریقین کے بیان کردہ احوال کی روشنی میں شرعی حکم بیان کرنا مفتی کا کام ہے۔ اُن کے سچا یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ اُن کے اور رب کے درمیان کا معاملہ ہے چنانچہ اگر کوئی فریق غلط بیانی سے کام لے رہا ہے، تو اُس کا وبال خود اُس پر ہے۔

شوہر کا یہ کہنا:’’ واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے ‘‘، الفاظ طلاق میں سے نہیں ہے، نہ صریح اور نہ ہی کنایہ اور شوہر بار بار یہ وضاحت کررہا ہے کہ اُس نے طلاق نہیں دی اور نہ ہی طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، بلکہ اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے اپنی بیوی کو کہا ہو : ’’مجھے تیری ضرورت نہیں ‘‘تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے کہا: مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں،تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی ‘‘۔ 

مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جب شوہر کہے: میں تیرا ارادہ نہیں کرتا یا میں تجھ سے محبت نہیں کرتا یا (میرے دل میں) تیرے لیے کوئی چاہت نہیں ہے یا مجھے تجھ میں کوئی رغبت نہیں ہے ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کلمات طلاق کی نیت سے کہے ہوں تب بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ، ’’البحرالرائق ‘‘ میں اسی طرح ہے ، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1،ص:375)‘‘۔ الغرض صورتِ مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، سسر صاحب کو چاہیے کہ دینی مسئلے کے لیے کسی ثقہ عالم اور مفتی سے رجوع کریں اور ان کے فتوے پر عمل کریں، خود مفتی نہ بنیں۔

شہادۃ (گواہی) شہود سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں :’’مجلس میں حاضر ہونا ،معائنہ کرنا ،اطلا ع پانا‘‘، گواہی دینے والا اُس بات کی گواہی دیتا ہے ، جس کا وہ مشاہدہ کرتاہے یا اُس بات کا یقینی علم رکھتا ہے۔ کسی واقعے کی شہادت کے لیے گواہ کا جائے وقوعہ پر موجود ہونا ، اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور براہِ راست کانوں سے سننا ضروری ہے، محض سنی سنائی بات کو آگے بڑھانا اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے، حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ بغیر تحقیق کیے ہرسنی سنائی بات کو آگے بیان کردے ، (صحیح مسلم:5)‘‘۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk