تحریر:بیرسٹر عثمان چیمہ…لندن ابھی پاکستان سے واپسی کے لئے سامان باندھنا شروع ہی کیا تھا کہ مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما کا فون آیا۔ انہوں نے سلام دعا کے ساتھ بس یہ کہا کہ میرا واپسی کا سفر بخیر گزرے، چند لمحے کے توقف کے بعد خبر سنا ئی کہ میاں محمد نواز شریف صاحب وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں ہوں گے اور رندھی ہوئی آواز میں بولے کہ آج اک عہد ساز شخصیت کا سیاسی عہد ختم ہو گیا اور فون بند کر دیا۔ اس کے بعد اگلے کچھ لمحوں تک نا تو کو ئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کام آئی اور نا ہی دل و دماغ نے ساتھ دیا۔ جب اوسان کچھ بحال ہوئے تو سب سے پہلی سوچ جو آ ئی وہ تھی کہ قوم اور ملک کا درد رکھنے والے نے آخر کیوں یہ فیصلہ کیا؟ پھر خیال آیا کہ کہیں انہیں پارٹی کے اندر سے تو نہیں قائل کیا گیا کہ اب آپ آرام کریں؟ ابھی یہ کشمکش جاری تھی کہ ایک اور فون وصول ہوا اور بتایا گیا کہ میاں نواز شریف نے وزارت اعظمیٰ کے لئے میاں شہباز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے محترمہ مریم نواز شریف کو نامزد کر دیا ہے۔ اب ان فیصلوں پہ سوچنا شروع کیا تو میاں صاحب کی زندگی کے نشیب و فراز آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو گئے۔ گو کہ میاں صاحب کی زندگی اک کھلی کتاب کی مانند ہے لیکن پھر بھی دل کیا کہ کچھ لکھوں اور شیئر کروں۔ میاں صاحب نے سیاست میں 80 کی دہا ئی میں قدم رکھا۔ اس سے پہلے وہ اپنے والد محترم میاں شریف کے ساتھ کاروبار سے منسلک رہے ۔ سیاست میں آ کر وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنے، پھر وزیر علیٰ بنے اور پھر ملکی سطح کی سیاست میں آ کر تین دفعہ وزیر اعظم بنے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں صاحب کو وزارت اعظمیٰ کاپانچ سالہ دور کبھی بھی مکمل نا کرنے دیا گیا۔ وہ ہمیشہ اپنے منصب سے ہٹا دیئے گئے۔ کبھی 58(2) بی کا استعمال کر کے، کبھی سازش کا بہانہ بنا کر اور کبھی بیٹے سے خیالی تنخواہ نا لے کر۔ انکی پہلی حکومت کا عرصہ قریبا 2 سال سات ماہ رہا، دوسری حکومت کا عرصہ قریبا 2سال اور آٹھ ماہ اور آخری حکومت کا عرصہ قریبا 3سال اور دس ماہ رہا۔ یعنی تینوں ادوار کی ٹوٹل پندرہ سالہ مدت میں سے انہیں 9سال حکومت کرنے دی گئی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی جتنی ترقی ان کے ان تینوں ادوار میں ہو ئی، اگر وہ نکال دی جائے تو پیچھے ایک ٹوٹا پھوٹا غیر ترقی یافتہ ملک ہی بچے گا۔ ڈیم بنانے سے لیکر موٹرویز کا جال بچھانے تک، ایٹمی قوت بنانے سے لیکر میزائل ٹیکنالوجی کو عروج دینے تک، ایٹمی صلاحیت کی آبدوزوں سے لیکر پہلے ماڈرن لڑاکا طیارے جے ایف 17کی ملکی سطح پہ تیاری تک، تھری جی، فور جی ٹیکنالوجی سے لیکر آپٹک فائبر بچھانے تک، گوادر ڈیپ سی پورٹ سے لیکر سی پیک لانے تک قوم جدھر بھی دیکھے گی نواز شریف کے ملک و قوم کی ترقی کے ضامن منصوبے ہی پائے گی۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کے معمار اور ملک کو دنیا کی چھ ایٹمی قوتوں کے درمیان لا کھڑا کرنے والے محسن کے ساتھ اس کے ہر دور کے آخر میں ظلم و جبر کرنے کی تمام حدیں پار کی گئیں؟ کبھی جھوٹے مقدمات میں جیل بھجوایا گیا اور کبھی جلا وطن کر دیا گیا۔ کبھی اپنی لاڈلی بیٹی سمیت قید کر دیا گیا تو کبھی اسے جیل میں زہر دے دیا گیا۔ آخر کیوں؟ کیوں ہر دفعہ اس شخصیت کو ذاتی عناد کا نشانہ بنایا گیا؟ کیوں وہ اپنے والد، پھر اپنی مرحومہ بیوی اور آخر میں والدہ کو قبر میں نا اتار سکا؟ مگر اس سب کے باوجود وہ سچا اور محب وطن پاکستانی رہا۔ اس کے سینے میں دفن پاکستانی راز کبھی غلطی سے بھی اس کی زباں پہ نا آئے۔ اس نے صرف ملک اور قوم کے مفاد کی خاطر ہمیشہ اپنے مخالفین کو کھلے دل سے معاف کر دیا۔ اس نے اس شخص کو بھی معاف کر دیا کہ جس نے اسے اپنے والد کو لحد میں اتارنے کے لئے میت کے ساتھ آنے پہ اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ کس طرح اس نے اسی شخص کو پاکستان لا کر دفنانے کی درخواست پہ نا صرف اسکی حمائت کی بلکہ اسے معاف کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اب جبکہ وہ وطن واپس آ چکا تو اس کا ایک ہی مطالبہ رہا کہ مقتدرہ الیکشن کے عمل سے دور رہے اور عوامی حمائت سے جو آگے آئے اسے آنے دیا جائے۔ اسی ضمن میں اس نے بارہا کہا کہ ملک اب کسی اور تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ایک مضبوط جمہوری حکومت ہی ملک کو واپس ترقی کی راہ پہ ڈال سکتی ہے۔ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک دفعہ پھر جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔ بقول مشہور صحافی سہیل وڑائچ کے، کہ اس دفعہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کی قیادت کے ساتھ بھی ہاتھ کیا گیا ہے اور جان بوجھ کر کسی ایک پارٹی کو اقتدار ملنے سے روکنے کے لئے نچلی سطح کے افسران نے پسند و نا پسند اور اکھاڑ پچھاڑ کی پچھلی روش کو ہی برقرار رکھا ہے۔چنانچہ میاں نواز شریف کی طرف سے متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی غیر مقبول و مخلوط حکومت کی سربراہی لینے سے انکار کا ذاتی اور مشکل فیصلہ کیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی ملک وقوم کی خاطر یہ ذمہ داری اٹھانے کے لئے میاں شہباز شریف کا نام بھی تجویز کیا۔ کیونکہ شہباز شریف صاحب نے اپنے پچھلے 16 ماہ کے اقتدار میں اپنی سیاست کو داو پہ لگا کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچا کر اپنے آپ کو اس عہدے کے لائق ثابت کیا۔ چنانچہ گمبھیر ملکی مسائل و نامسائد حالات کو پس پیش رکھتے ہوئے قرہ فال ایک دفعہ پھر انکے نام کا نکلا۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کی سربراہی کے لئے محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کو ذمہ داری سونپی گئ ہے۔ اور امید واثق ہے کہ وہ پنجاب کو ترقی یافتہ صوبہ بنانے میں دن رات ایک کر دینگی۔ میاں نواز شریفں صاحب بلا شبہ ایک عہد ساز شخصیت ہیں کیونکہ جب جب انہیں اقتدار سے جبرا الگ کیا گیا وہ مزید عوامی حمائت کے ساتھ واپس ائے۔ اور انہوں نے ملکی ترقی و خوشحالی کا سفر وہیں سے دوبارہ شروع کیا جہاں سے ہر دفعہ زبردستی توڑا گیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں صاحب اس وقت کی سب سے بڑی اور قومی سیاسی شخصیت ہیں۔ سو یہ کہنا بے جا نا ہو گا کہ ان کے وزیر اعظم نا بننے کے فیصلے کے بعد سیاسی میدان میں ملک و قوم اک عہد ساز شخصیت سے محروم ہو گئ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دلی دعا ہے کہ وہ میاں صاحب کو صحت بھری لمبی عمر عطا فرمائیں تاکہ وہ میاں شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز کی حکومتوں کی نگرانی کر سکیں اور انہیں کامیاب بنانے میں اپنا قلیدی کردار ادا کر سکیں۔