ماہم احسن
”ماجد! بیٹا میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ درختوں پر نہ چڑھا کرو، چوٹ لگ سکتی ہے اور اپنے کپڑوں کا حال تو دیکھو جگہ جگہ سے پھٹ گئے ہیں۔‘‘ امی نے اس کا حلیہ دیکھ کر کہا۔
”لیکن امی، دوسرے لڑکے بھی تو درخت پر چڑھتے ہیں، انھیں تو کوئی منع نہیں کرتا۔“ ماجد نے برا سا منہ بنایا۔
”دوسرے لڑکے تم سے بڑے ہیں، “ اس کی امی نے ٹھنڈی سانس بھری۔ وہ اسے سمجھاتے سمجھاتے تھک چکی تھیں۔ ”تم درخت سے گر سکتے ہو، خدا نخواستہ تمھاری ٹانگیں یا ہاتھ بھی ٹوٹ سکتے ہیں‘‘۔ امی نے اُسے دوبارہ سمجھایا۔
’’اچھا آئندہ ایسا نہیں کروں گا‘‘ ماجد نے کہا۔ کچھ ہفتے گزر گئے، اُس نے بامشکل خود کو درختوں پر چڑھنے سے روکے رکھا۔ ایک دن وہ اپنے گھر کے باغ میں بیٹھا تھا کہ اچانک عاکف نے برابر والے گھر کی دیوار سے جھانکا۔ ”کیسے ہو ماجد؟ پتہ ہے میں ابھی اونچے درخت پر چڑھا تھا، مجھے یقین ہے کہ تم کبھی اتنے اونچے درخت پر نہیں چڑھے ہوگے۔“
”میں تم سے پہلے چڑھ چکا ہوں۔“ ماجد نے کہا۔”تم اونچائی تک تو نہیں پہنچے ہوگے۔“ عاکف نے کہا۔‘‘
”میں آرام سے چڑھ سکتا ہوں۔“ ماجد نے کندھے اچکائے۔ ”لیکن امی نے مجھے منع کیا ہے اور ویسے بھی میں نے ابھی نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔“
”تم بہانے تراش رہے ہو“ عاکف نے اس کا مضحکہ اڑایا۔ ”تم اونچے درخت پر نہیں چڑھ سکتے۔“
”میں چڑھ سکتا ہوں،”میں تم کو ابھی دیکھاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ بھاگتا ہوا ایک اونچے درخت پر چڑھنے لگا۔ اچانک ایک نوکیلی شاخ میں اس لی قمیض پھنس کر کو پھٹ گئی۔ ”اوہو! امی کتنا ناراض ہوں گی۔“ اس نے افسوس سے سوچا۔
کوئی آرہا ہے! میں جارہا ہوں۔“ عاکف یہ کہتے ہی دیوار کے پیچھے غائب ہوگیا۔ ماجد نے گھبرا کر شاخوں کے درمیان سے نیچے دیکھا، اسے ابو آتے دکھائی دیئے۔
وہ درخت کی شاخوں کے درمیان چھپ گیا۔ جب ابو گھر کے اندر چلے گئے تو اس نے درخت سے اترنے کا سوچا ہی تھا کہ اچانک عاکف کی آواز دوبارہ آئی۔”چلو ماجد اوپر تک جاؤ۔۔“ ابو کے جانے کے بعد وہ دوبارہ دیوار سے جھانکنے لگا۔ ماجد سب کچھ بھول کر دوبارہ درخت کے اوپر چڑھنے لگا۔ اونچائی پر پہنچ کر اس نے دیکھا، دور دور تک بنے ہوئے گھر، سڑکیں اور اکا دکا گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے اترنے کی کوشش کی تو اُس سے اُترا نہیں گیا۔
اس نے بار بار کوشش کی لیکن کارگر ثابت نہیں ہوسکی بلکہ اس چکر میں قمیض جگہ جگہ سے پھٹ گئی۔ وہ بہت خوف زدہ ہوگیا ۔ ”میں اب کیا کروں؟ اگر امی اور ابو کے معلوم ہوا کہ میں ان کے منع کرنے کے باوجود درخت پر چڑھا ہوں تو وہ بہت غصہ ہوں گے۔“
وہ بے چارگی سے درخت پر ہی بیٹھا رہا یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اسے امی کی آواز آئی، وہ اسے پکار رہی تھیں لیکن وہ چپ چاپ درخت میں ہی دبکا بیٹھا رہا۔ وہ بہت تھک گیا تھا اور اسے بھوک بھی لگ رہی تھی۔
”آخر میں اتنا بے وقوف کیوں ہوں؟ محض عاکف کے للکارنے پر بےوقوفوں کی طرح اتنے اونچے درخت پر چڑھ گیا ماجد سوچ رہا تھا۔
سردی بڑھنے لگی۔ ”اوہ میرے خدا! آج کتنی ٹھنڈ ہے۔“سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اُس سوچ رہا تھا۔ کچھ دیر میں اندھیرا چھانے والا تھا۔ ماجد کو دوبارہ امی کی آواز آئی، پھر اس کے ابو باغ میں آگئے، وہ اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ چپ چاپ درخت پر بیٹھا رہا۔ اس نے دوبارہ نیچے اترنے کی کوشش کی۔ اچانک ایک شاخ میں اس کا پاؤں پھنس گیا۔”اوہ میرے خدا‘‘۔ بے اختیار اس نے کہا۔ ماجد کے امی ابو، اس کے لیے بہت پریشان تھے۔ وہ اس کو ہر جگہ تلاش کررہے تھے۔
”امی! ابو! میری مدد کریں، مدد کریں!“ تھک ہار کر اُس نے آواز دی ۔ اچانک انھیں چیخنے کی آواز آئی۔
”یہ ماجد کی آواز ہے جو باغ سے آرہی ہے۔“ امی نے کہا۔ وہ باغ میں پہنچے اور ماجد کو تلاش کرنے لگے۔
’’میرے بچے تم کہاں ہو؟“ امی نے پریشانی سے پوچھا۔
”امی، میں یہاں ہوں، سب سے اونچے درخت پر۔“ ماجد نے روہانسی آواز میں جواب دیا۔ ”میں نیچے نہیں اتر پارہا۔ میں کئی گھنٹوں سے یہاں بیٹھا ہوں۔ ‘‘
”تم درخت کے اوپر ہو؟“ اس کے ابو نے حیرانی سے اوپر دیکھا۔ ”تمہیں منع کیا تھا لیکن خیر ”میں سیڑھی لاتا ہوں۔“ ابو نے جلدی سے کہا اور گھر کے اندر چلے گئے۔
ابو جلد ہی سیڑھی لے آئے اور اسے درخت کے ساتھ ٹکا کر رکھا۔”نیچے اتر آؤ۔ ذرا خیال سے، تمہیں چوٹ نہ لگ جائے۔“ ابو نے ہدایت دی۔
ماجد کے ہاتھ پاؤں برف کی مانند ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ وہ بامشکل سیڑھی سے اتر رہا تھا کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر گرنے لگا۔ ابو نے اسے پکڑنے کی کوشش کی، لیکن دیر ہو چکی تھی۔”آہ میری ٹانگ! آہ امی! بہت درد ہو رہا ہے!“ ماجد تکلیف سے چیخنے لگا۔
اس کی ٹانگ میں فریکچر ہوگیا تھا۔ امی ابو اس کو اسپتال لے گئے، جہاں اس کی ٹانگ پر پلاستر چڑھادیا گیا۔
ماجد نے امی ابو کو پورا قصہ سنایا۔”آپ لوگ جو چاہے مجھے سزا دے دیں۔ میں نے آپ کی نافرمانی کی ہے۔“
”تمھاری سزا کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم کوئی کھیل نہیں کھیل سکو گے۔ ہمیں افسوس ہے کہ آنے والے فٹ بال کے میچ میں حصہ نہیں لے سکو گے۔“ابو نے کہا۔
کچھ عرصہ بعد ماجد کی ٹانگ سے پلاستر اترگیا اور وہ تندرست ہوگیا۔ اس نے اپنے امی ابو سے وعدہ کیا کہ اب وہ ان کا کہنا سنے گا۔