• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک بھارت آرمڈ فورسز کا تازہ ترین تقابلی جائزہ

اسلام آباد (تجزیاتی رپورٹ:حنیف خالد) بھارت کے پاس 8لاکھ فوج پاکستان سے زیادہ ہے۔ انڈیا کے پاس 14لاکھ سرونگ آفیسر اور سولجرز ہیں‘ پاکستان کے پاس ساڑھے 6لاکھ فوج ہے‘ اس میں ریزرو اور پیرا ملٹری فورسز شامل نہیں ہیں۔ اگر اسے شامل کیا جائے تو بھارت کے پاس پچاس لاکھ سے زائد فوج ہے۔ 

بھارت کے این ڈی ٹیلی وژن کے مطابق بھارت کے پاس 4614ٹینک ہیں اور ٹینکوں کے اعتبار سے بھارت دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کے پاس 3742ٹینک ہیں۔ 

بھارتی افواج کے پاس ایک لاکھ 51ہزار 248بکتر بند گاڑیاں (اے پی سی) ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 50ہزار سے بھی کم بکتر بند گاڑیاں ہیں۔ 

بکتر بند گاڑیاں پیادہ فوج کو میدان جنگ میں تیزی سے ادھر ادھر لے جاتی ہیں۔ وہ نہ صرف فائر پاور بڑھاتی ہیں بلکہ لڑائی کے دوران بہترین جنگی چالوں کو یقینی بنانے کیلئے آپریشنز کو تیز کرتی ہیں۔

 انڈین ٹی وی کے مطابق چینی ماہر فوجی حکمت عملی نے اپنی کلاسک کتاب دی آرٹ آف وار میں لکھا ہے کہ بکتر بند گاڑیوں میں ٹینک‘ پیادہ فوج‘ لڑاکا گاڑیاں‘ بی ایم پی اور ویلڈ یا ٹریکڈ سسٹم شامل ہیں جو فوجیوں کی تیز تر تعیناتی کر سکتے ہیں۔ 

انڈین فوجی ماہر کے مطابق پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ آٹومیٹک توپ خانے کے نظام ہیں۔ 

دونوں ممالک کے درمیان چھ بارہ کا فرق ہے۔ بھارت کے پاس 140آٹومیٹک توپخانے کی توپیں ہیں۔ 

توپخانہ میدان جنگ میں دشمن کی پوزیشنوں پر دور سے حملہ کرنے اور فوج کی نقل و حمل کی سہولت فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 1999ء میں کارگل کی لڑائی کے دوران فوج کی واپسی کے دوران بوفرز توپوں نے برفانی بلندیوں پر قبضہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

جہاں تک بحری افواج کا تعلق ہے خلیج بنگال‘ بحیرہ عرب اور بحرہند میں اقتصادی اور سلامتی کے مفادات کے ساتھ بھارت کی ایک طویل سمندری سرحد ہے۔

 اس دوران پاکستان کی صرف بحیرہ عرب کے ساتھ سمندری سرحد ہے۔ بھارت کی پاکستان کے مقابلے میں بڑی بحریہ ہے جس کے بیڑے کی طاقت پاکستان کے 114کے مقابلے میں 294ہے۔ 

بھارتی بحری جہاز وکرما دتیا اور وکرانت سمیت 2طیارہ بردار جہاز اور تباہ کن جہاز کوروریٹس فری گیٹس‘ سب میرین جیسے دیگر پلیٹ فارم بھارت کو ایک نیلے پانی کی بحریہ بناتے ہیں۔ یہ ایک بحریہ فورس ہے جو عالمی سطح پر کام کر سکتی ہے۔

 این ڈی ٹی وی کے مطابق بھارت اپنے لڑاکا طیاروں اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے نظام کو اپنے طیارہ برداروں کے ساتھ دنیا کے کسی بھی حصے میں لے جا سکتا ہے۔

 امریکی بحریہ دنیا کی سب سے بڑی نیلے پانیوں کی بحریہ ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی حصے میں چند منصوں میں کارروائی کر سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس کوئی طیارہ بردار جہاز نہیں ہے اور اسکی محدود طاقت اسے ایک گرین واٹر نیوی بنا دیتی ہے جو اپنے علاقے میں کام کر سکتی ہے۔ 

بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی طاقت کا موازنہ کچھ یوں ہے کہ 2023-24ء کے مرکزی بجٹ میں بھارت نے اپنے بجٹ کا 13فیصد فوجی اخراجات پر 78ارب 80کروڑ امریکی ڈالر مختص کئے جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 6ارب 34کروڑ ڈالر کا ہے۔ 

این ڈی ٹی وی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق جو شماریات کا تجزیہ کر کے کسی ملک کی روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیتوں کا تعین کرتا ہے۔

 بھارت کو دنیا کی چوتھی طاقتور ترین فوج کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے جو صرف امریکہ‘ روس‘ چین کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے۔ اس دوران پاکستان ایک پڑوسی جس کے ساتھ بھارت آزادی کے بعد کئی بار جنگیں لڑ چکا ہے اور جو ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی سے لڑ رہا ہے‘ انڈیکس میں پاکستان کا 9واں نمبر ہے۔ 

بھارت اور پاکستان کے درمیان گلوبل فائر پاور انڈیکس ساٹھ سے زائد عوامل کا ڈیٹا لیتا ہے جس میں ملک کی جی ڈی پی‘ آبادی‘ فوجی طاقت‘ خریداری کی طاقت وغیرہ شامل ہے تاکہ کسی بھی ملک کی مکمل روایتی جنگ کی صورت میں لڑائی کی صلاحیت کا تعین کیا جا سکے۔

اہم خبریں سے مزید