• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز، بے چینی آخری حدوں کو چھونے لگی

سکھر (بیورو رپورٹ) پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے، بے چینی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، ناقابل برداشت مہنگائی، بیروزگاری، بھوک، غربت اور مایوسی نے عوام سے زندہ رہنے کی امنگ چھین لی ہے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں20روپے فی لیٹر تک ریکارڈ اضافہ کیا گیا، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دیئے گئے، مہنگائی کے سیلاب نے بند توڑ دیئے ہیں اور حالات اب کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ آٹا، چاول، دالیں اور گھی جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ اب تو لوگوں کو اچھی خبریں سننے سے خوف آرہا ہے جبکہ یہ بری خبریں ہیں۔ بار بار بجلی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی سے عام آدمی بہت پریشان ہے، غربت کی لکیر33سے متجاوز ہوکر40فیصد پر جاچکی ہے۔ سروے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اظہار خیال۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لئے نگراں حکومت کی جانب سے یکم فروری کو ساڑھے 13 روپے، 16فروری کو 2روپے 73پیسے اور یکم مارچ کو 4روپے 13پیسے، مجموعی طور پر20روپے 36 پیسے تک اضافہ کرکے عوام کے لئے ضروری اشیاء کے حصول کو بھی مشکل ترین بنادیا ہے۔ اس سلسلہ میں کئے گئے سروے میں لوگوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کچلتے عوام سے بہتر اور کون جا نتا ہے کہ پٹرول کے نرخ میں اضافے کا مطلب ماچس اور نمک مرچ سے لیکر کرایہ مکان، اسکول، کالجوں کی فیس اور علاج معالجے تک گھریلو استعمال کی ہر شے کے نرخ میں بڑھ جاتے ہیں، عوام کی درگت یہیں نہیں رکتی ایک وار حکومت کرتی ہے، تو دوسرا وار ناجائز منافع خور اشائے خورونوش کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیتے ہیں۔ عوام ہراساں و پریشاں۔ وطن عزیز کا غریب اور متوسط طبقہ غریب تر جبکہ شاہانہ زندگی گزارنے والے امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور دونوں کے درمیان پیدا شدہ خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے۔اب حکمران حلقے اور بالائی طبقات رضاکارانہ طور پر بوجھ میں حصہ دار بنیں بلکہ سب سے بڑے حصہ دار بنیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ آنیوالی پارلیمان ساری صورتحال کا ادراک کرے اور غریب کی مشکلات کم کی جائیں۔ حکومت کوگیس اور پیٹرول کی بڑھائی گئی قیمتیں فی الفور واپس لینی چاہیے اور بیرونی تجارت میں توازن لانے کے ساتھ ٹیکسوں کے شعبے میں اصلاحات لاکر آئی ایم ایف سے کنارہ کشی ہی بہتر راستہ ہے۔
اہم خبریں سے مزید