دیا خان بلوچ
عزیر چھٹی جماعت کا طالبعلم ہے۔ وہ شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا لاپرواہ بھی ہے۔ جب سے رمضان المبارک شروع ہوئے وہ سارے روزے رکھ رہا تھا۔ سحری کے بعد نماز پڑھتا اور سو جاتا۔ امی زبردستی اسے اسکول جانے کے لیے اُٹھاتی تھیں۔ اسکول سے آنے کے بعد جیسے تیسے یونیفارم تبدیل کر کے دوبارہ سوجاتا۔ اس کی امی بڑی مشکل سے اُسے دوبارہ ظہر کی نماز کے لئے جگاتی تھیں۔ اس وقت وہ بہت منہ بناتا ’’ امی ابھی اور سونے دیں۔‘‘ کہہ کر پھر سو جاتا۔
کبھی کبھار تو وہ بہت غصہ ہوتا اور آس پاس پڑی چیزیں بھی توڑ دیتا۔ کل ہی اس نے پڑوس میں رہنے والے اپنے دوست علی کو ہی تھپڑ ماردیا ، وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی سائیکل چلا رہا تھا۔ علی نے اس سے دوستی ختم کر لی تھی۔ دوستی ختم ہونے کی وجہ سے عزیر اور بھی پریشان رہنے لگا کیوں کہ علی اس کا بچپن کا دوست تھا۔امی اس کی ان حرکتوں سے بہت پریشان تھیں۔ انہوں نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
عزیر ہر بار ان سے معذرت کرتا لیکن پھر جب اس کو غصہ آتا تو وہ سب کچھ بھول جاتا تھا۔اس بار تو اس نے حد کر دی ۔گلی میں بچے کرکٹ کھیل رہے تھے کہ بال ان کے گھر میں آگری۔ ہمسائے کا بچہ اپنی گیند لینے آیا تو عزیر نے اسے گیند نہ دی بلکہ ڈانٹ کر بھگا دیا۔ امی نے زبردستی گیند اس سے لےکر باہر گلی میں بچوں کے پاس پھینک دی۔ انہوں عزیر کے غصے کے بارے میں اس کےوالد کو بتایا ۔وہ بھی کافی دنوں سے اسے دیکھ رہے تھے لیکن اس کا مسئلہ سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ ایک دن سحری کے وقت ابو نے کہا کہ،’’ آج سے عزیر روزہ نہیں رکھے گا۔‘‘عزیر نے جب یہ سنا تو اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔’’لیکن کیوں ابو جان؟‘‘اس نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا ،روزہ ﷲ کے لئے ہے، روزہ صبر کا نام ہے جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو ہم صبر کرنا سیکھتے ہیں۔ لیکن اگر ہم روزہ رکھ کر بھی اس طرح کا رویہ رکھیں کہ جیسے ہم دوسروں پر احسان کر رہے ہیں تو ایسے روزے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اگر روزہ رکھنے سے آپ کے اندر برداشت کا مادہ پیدا نہیں ہوتا تو پھر آپ نے روزہ رکھ کر کیا سیکھا ؟‘‘
’’ ابو میں کسی پر احسان تو نہیں کرتا۔‘‘عزیر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’لیکن آپ کا انداز تو ایسا ہوتا ہے۔ مجھے بتائیں کیا وجہ ہے کہ آپ کو غصہ بہت آتا ہے؟‘‘ ابو نے پوچھا۔
پہلے تو عزیر خاموش رہا پھر بولا،’’ابو جان میرے سارے دوست میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ میںروزہ رکھ کر گھر میں آرام بھی کرتا ہوں۔مجھے ان کی باتیں بہت بری لگتی ہیں۔ پھر مجھے گرمی اور پیاس بھی بہت لگتی ہے۔‘‘
’’بیٹا !آپ کو کس نے کہا کہ آپ گھر میں قید ہو کر رہیں ،آپ جایا کریں اپنے دوستوں کے پاس ۔ان سے ملو۔ان کے ساتھ کھیلو نماز پڑھنے جاؤ۔ ﷲ تعالیٰ روزہ دار کو بہت سے انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ رمضان المبارک میں ایک نیکی کا صلہ ستر گنا زیادہ ملتا ہے۔ کسی سے مسکرا کر بات کرنا بھی نیکی ہے۔‘‘عزیر خاموشی سے یہ ساری باتیں سنتا رہا۔ اس نے سحری کھائی اور ابو کے ساتھ نماز ادا کرنے چلا گیا۔
آج اس کو غصہ بھی نہیں آرہا تھا۔اس نے اطمینان سے نماز پڑھی اور گھر آکر تلاوت ِ قرآن پاک بھی کی۔ جب امی ابو نے عزیر کو اس طرح پرسکون دیکھا تو ان کو بھی اطمینان ہوا۔ اس دن عزیر نے امی کی کام میں مدد بھی کی اور ساتھ والی خالہ اماں کے گھر افطار بھی بغیر ضد کیے دینے چلا گیا۔
افطار کے وقت عزیر نے ابو سے کہا، ابو جان مجھے سمجھ آگئی ہے روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ کسی کی دل آزاری بھی نہیں کر نی چاہیے اور اپنے چھوٹوں سے پیار اور بڑوں کا ادب بھی کرنا چاہیے۔آج کے بعد میں آپ کو کبھی بھی تنگ نہیں کروں گا۔ سب کا خیال رکھوں گا‘‘اس کی بات سن کر ابو نے اُسے گلے لگا لیا۔