• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صغرٰی یامین سحر، لاہور

ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑا مسئلہ نظام تعلیم کا جدید تقاضوں کے مطابق نہ ہونا ہے۔ اس حقیقت سے چنداں انکار نہیں کہ سائنس کے میدان میں نے بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ تعلیمی لحاظ سے بہت ساری سہولتیں میسر آچکی ہیں، جیسے کمپیوٹر، انٹرنیٹ موبائل اور دیگر ٹیکنالوجی وغیرہ، ان کی وجہ سے فاصلے سمٹنے کے ساتھ ساتھ معلومات کا ذخیرہ حاصل کرنا بہت سہل ہوگیا ہے، مگر اتنی سہولیات ملنے کے باوجود بھی ہم تا حال سائنسی ایجادات میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔

اکثر و پیشتر دل و دماغ میں یہ سوالات گردش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ آخر وہ کونسی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے ہم تا حال تعلیمی میدان میں کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے۔ اس کی اہم وجہ ناقص نظام تعلیم ہے، نہ صرف یہ بلکہ تعلیمی درس گاہوں کا حال بھی بہت خراب ہے، پھریہ جنریشن خود کس حد تک ناقص نظام نافذ کرے گی۔

تعلیم جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا کے لیے ضروری ہے بد قسمتی سے اس کو بہتر بنانے کے لئے ہم نےکوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ۔ دوسرے ممالک جو روز بروز ترقی کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں طلبا کوپڑھانے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی بہت کچھ سیکھایا جاتا اور ان کی دلچسپی کے مطابق ماحول دیا جاتا ہے ۔طلبا اپنے اساتذہ کے ساتھ بلا جھجھک گفتگو کرتے ہیں، سوال پوچھتے ہیں اور اساتذہ بھی جواب ایسے طریقے سے دیتے ہیں جس سے طلبا مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ ان میں تحقیق و جستجو کاجذبہ پیداکرتے ہیں جو کہ ایک بہترین اور مثالی تعلیم کی علامت ہے، طلبا کی صلاحیتوں کو نکھاراجاتا ہے۔

اساتذہ پہچانتے ہیں کہ کس بچے میں کیا صلاحیت ہے اور اس کواسی انداز میں پالش کرتےاور بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جبکہ ہمیں اپنی تعلیمی نظام میں یہ باتیں دیکھنے کونہیں ملتیں۔ ہمارے طلبا کتابی کیڑا، ڈگری ہولڈر تو بن جاتے ہیں ،مگر عملی میدان میں ناکام رہتے ہیں۔ تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی گئی ہے، ان میں سے بعض تو جدید تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں اور جو اہل ہوتے ہیں، اُن میں سے بیشتر اپنی ذمہ دا ریوں کو پورانہیں کرتے۔ 

ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں نظامِ تعلیم میں بے حد تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ بظاہر تو طلباءکی خواہش ہوتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ بن جائیں یا کسی اعلیٰ منصب پر فائز ہو جائیں، مگر شعور حاصل کرنے کی بجائے نمبر حاصل کرنے کی مشین بنے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب “مقدار تعلیم” نے “معیار تعلیم” پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔ علم تو ہمارے بیچ رہ گیا لیکن وہ معیار نہیں وہ جستجو نہیں جس کے لئے مشرق کے مسلمان مغرب کی اور مغرب کے مسلمان مشرق کی خاک چھانتے تھے۔

تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے چند تجاویز:

1) تعلیمی اداروں میں تعلیم و تدریس اور تحقیق بامقصد، بہتر اور معیارایسا ہو، جس سے طلبہ و طالبات میں علم و شعور، صلاحیت میں اضافہ ہو۔

2) تمام سرکاری اداروں کا معیار تعلیم ،طریق تدریس ، سہولیات اور انتظام وانصرام بہتر کیا جائے۔

3) تعلیمی بجٹمیں خاطر خواہ اضافہ کر کے اسکولوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

4) جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں لائی جائیں، تاکہ نسلِ نو آج کے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں۔

5) طلباکی صلاحیتوں میںنکھار اور شخصیت کا ارتقاء ایک اچھے استادہی کی بدولت ہوتا ہے، لہذاتعلیمی معیار کو بڑھانے کے لیے میرٹ پر اساتذہ کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر تربیت بھی ضروری ہے، تاکہ وہ بدلتے حالات کے مطابق طلبا کی تربیت کر سکیں۔

6) تعلیم ایک ہمہ جہتی عمل ہے جس میں صحت و تندرستی بھی شامل ہے۔اس کے لیے غیر نصابی سر گرمیاں ضروری ہیں، جس سے طلبہ کی نہ صرف صحت بہتر ہوگی بلکہ ان میں مقابلہ کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔

7) موجودہ دور میں ٹیکنالوجی اور دیگر جدید وسائل کا استعمال ازحد ضروری ہے، اس لیے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ جدید طریقوں کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے، تاکہ طلبا ان کا مثبت استعمال سیکھ سکیں۔

8) دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جن سے زندگی میں کئی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ لیکن ہمارا نصاب، نصاب کے اہداف و معیار، درسی کتابیں، اساتذہ کا معیار اور کتب خانے وہی ہیں جو آج سے عشروں پہلے تھے۔ ان میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی۔ نصاب پر ہر چار پانچ سال کے بعد نظرثانی ازحد ضروری ہے۔

9) نصابِ تعلیم ایسا ہوجوشعور دے سکے، سوچنے اور فکرکرنے کی صلاحیت پیدا ہوکرسکے، طالبِ علم کو دنیا،کائنات اور اس کے عوامل پر غور و خوض کرنے کے قابل بنائے اوراُس کے اندر سمجھنے، سمجھانے اور تسخیر کرنے کے جذبے پیدا کرے۔

تعلیمی اداروں میں طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہیے اور انہیں فقط کتابیں پڑھانے کے بجائے جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم دینی چاہیے ،تاکہ وہ ڈگری حاصل کرلینے کے بعد احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور اپنی ڈگری کے مطابق کام کرکے اپنی زندگی کو خوش حال بناسکیں۔

تعلیم کے معیاری اور بامقصد ہونے کا سب سے زیادہ انحصار خود طالبعلموں پر بھی ہے، اگر وہ حصول تعلیم کے سلسلے میں مخلص نہیں ہوں گے، ان میں اخلاص اور لگن کے ساتھ، ایک جذبے اور شوق سے تعلیم اورتربیت حاصل کرنے کا ذوق پیدا نہیں ہوگا۔