• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاستی اداروں کیخلاف سوشل میڈیا مہم، مقدمات درج کرانے کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل کریں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ( رپورٹ:،رانا مسعود حسین ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کیخلاف مذموم مہم چلانے یا قابل اعتراض مواد اپ لوڈ کرنے کے حوالے سے ، اس سوال کو حل کرنے کے لئے امائیکس کیورائے (عدالت کے دوست )مقررکرنے کا فیصلہ کیاہے کہ آیا کہ، سوشل میڈیا پر جس شہر سے قابل اعتراض وی لاگ،مواد اپ لوڈ کیا جائے گاجرم اسی جگہ کا تصور ہوگا یا مدعی جس شہر میں جی چاہے مقدمہ درج کروا سکتاہے

 دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے واضح کیا ہے عدالت سوشل میڈیا پر ایک ہی معاملہ کے حوالے سے ملک بھر میں متعدد مقدمات درج کرانے کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کردے گی

 انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایک ہی جرم کے حوالے سے چاہے جتنی بھی ایف آئی آرز درج ہوں ، ٹرائل ایک ہی مقدمہ میں ہوتا ہے اور سزا بھی ایک ہی کیس میں ہی ہو سکتی ہے، جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل بنچ نے منگل کے روز وی لاگر ،عمران ریاض ، سینئر صحافی سمیع ابراہیم ،معید پیرزادہ اور ارشد شریف مرحوم کے خلاف سوشل میڈیا پر وی لاگ اپ لوڈ کرنے کے الزمات میں ملک بھر میں درج فوجداری مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کے حوالے سے ملزمان کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو عدالت کے ایک سابقہ حکم نامہ کے باوجود وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے مذکورہ بالا صحافیوں /ملزمان کیخلاف ملک بھر میں درج مقدمات کی مکمل رپورٹ جمع نہیں کروائی گئی.

عدالت کے استفسار پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ آئی جی سندھ کو چٹھی لکھ رکھی ہے لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا ،جس پر فاضل جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئی جی سندھ وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پررپورٹ نہیں دے رہا ؟

انہوں نے کہا کہ اس مقدمہ کو 2سال ہو گئے جبکہ آج اسکی 15 ویں سماعت ہے، ہم کسی دوسرے ملک سے تو معلومات نہیں مانگ رہے ؟ رپورٹ منگوانا کتنا مشکل کام ہے ؟ سوال تو یہی ہے کہ کسی شخص کیخلاف ایک ہی جرم میں مختلف شہروں میں ایک سے زائد ایف آئی آر زکیسے درج ہو سکتی ہیں؟ انکے خلاف اٹک ، چکوال ، سرگودھا ، خوشاب میں درج کچھ ایف آئی آرز تومنسوخ بھی ہو چکی ہیں.

فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ کیا ملزم دس اضلاع میں جائے گا ؟جس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ اگر مختلف تاریخوں میں مختلف جگہوں پر کوئی ایک جیسی قابل تعزیر بات کی گئی ہو تو وہ ایک ہی جرم تصور نہیں ہو گا،جس پر فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ اگر کسی ریاستی ادارے کو بدنام کرنے کا معاملہ ہو تو کیا ادارہ کے آفس کی حدود میں مقدمہ درج نہیں ہو گا ؟

اہم خبریں سے مزید