• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشرت زاہد

صُبح کے وقت آٹا گوندھنے کے لیے انیلا نے ڈبّا کھولا، تو اُس میں بس دو چار روٹیوں ہی کا آٹا تھا۔ ’’ابّا…‘‘ اُس نے آہستہ سے اپنے سسر کو آواز دی۔ ’’جی بیٹا…‘‘ وہ جائے نماز تہہ کرتے ہوئے بولے۔ ’’آٹا ختم ہوگیا ہے، بس ابھی کی روٹی بنے گی۔ آپ کہہ رہےتھے ناں کہ آج کچھ انتظام ہو جائے گا۔‘‘ ’’ہاں بیٹی، اُمید تو ہے۔ ابھی جاکر لائن میں لگ جاؤں گا۔ کل جب پہنچا تھا، تو میری باری آنے سے پہلے ہی راشن ختم ہوگیا تھا۔‘‘ ’’جی ابّا! جلدی جائیں گے، تو نمبر آہی جائے گا۔‘‘ انیلا کے چہرے پر اُمید اور خوشی نظر آ رہی تھی۔ ’’اللہ کرے، آٹے کے ساتھ چینی، پتّی، دالیں بھی مل جائیں۔‘‘وہ زیرِ لب بڑبڑائی۔ پھراُس نے جلدی سے آٹا گوندھ کر روٹیاں بنائیں۔ اپنے سسر کو چائے کے ساتھ روٹی دی اور بچّوں کو ناشتا کروانے لگی۔

انیلا کا سسر، شفاعت علی گھر کا واحد کفیل تھا۔ کچھ سال پہلے12 مئی کو اُس کا اکلوتا بیٹا عابد کام پر جاتے ہوئے ایک اندھی گولی کا شکار ہوکر موقعے ہی پر دَم توڑ گیا تھا۔ شفاعت کی تو جیسے دنیا ہی اندھیر ہوگئی تھی۔ بیوی کا ایک سال پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ اُن کے دو ہی بچّے تھے، ایک بیٹی شادی کے بعد لاہور چلی گئی تھی اور دوسرا یہ بیٹا تھا، جس کی جوان بیوی اور دو بیٹیاں تھیں، جب کہ بیٹا، عابد کے انتقال کے دو ماہ بعد پیدا ہوا۔ یہ لوگ سولجر بازار میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ بیٹے کے انتقال کے بعد شفاعت کو ایک بار پھر کمر کسنی پڑی، حالاں کہ 65 سال سے زائد عُمر اور لاغر وجود کے ساتھ اُسے دَمے کا مرض بھی تھا، جو سردیوں میں تو کچھ زیادہ ہی پریشان کرتا تھا۔ 

اب کوئی نوکری ملنی تو بہت مشکل تھی کہ اُس نے زندگی بھرایک پرائیویٹ فرم میں قاصد کی نوکری کی تھی اور کوئی ہُنر بھی نہیں آتا تھا۔ سو، سبزی کا ٹھیلا لگانا شروع کر دیا، تو جیسے تیسے گزارہ ہونے لگا۔ بچی ہوئی سبزی گھر میں کام آجاتی، لیکن یہ ناکافی تھا۔ گھرکا کرایہ، بڑی بچی کی اسکول کی فیس، دوائیاں، کپڑے، بل… سب بھرنے کےلیے مزید آمدنی کی ضرورت تھی۔ جوان بہو کو کام پر نہیں بھیج سکتا تھا۔ اُس کے بچے بھی چھوٹے تھے۔ پھر کسی نےگھر پر کچھ کام لا دیا۔ ریکزین اورچمڑے کی پتلی پتلی پٹیاں تھیں، جن کی صاف سی چوٹی بنانی ہوتی تھی۔ یہ لیڈیز پرس کے ہینڈل کے کام آتی۔ مگر ضروریات کا منہ تھا کہ بَھرتا ہی نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ گھر کی تمام چیزیں بکتی چلی گئیں۔ جیسے تیسے زندگی کی گاڑی گھسٹ رہی تھی۔

پرسوں کسی نے شفاعت کو بتایا تھا کہ کوئی فلاحی تنظیم راشن دے رہی ہے۔ مگر جب وہ وہاں لینے پہنچا، تو سب کچھ ختم ہوچُکا تھا۔ سو، آج وہ سویرے سویرے ہی چنگچی میں بیٹھ کر مطلوبہ جگہ پہنچ گیا تھا۔ آج بھی بہت لمبی لائن تھی۔ ’’اِن لوگوں نےاتنی جلدی کیسے اتنی لمبی لائن لگالی؟ ابھی تو سورج بھی ٹھیک سے نہیں نکلا۔‘‘ اُس نے حیرت سے سوچا اور اللہ کا نام لے کر لائن میں لگ گیا۔ اُس کے دل کی عجیب کیفیت ہورہی تھی۔ آج سے پہلے کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانےکی نوبت جو نہیں آئی تھی۔ وہ کبھی اپنی ہتھیلیاں مسلتا، تو کبھی انگلیاں مروڑنے لگتا۔

زبان پر ’’استغفار‘‘ کا ورد جاری تھا۔ اللہ اللہ کر کے آٹھ بجے انہوں نے راشن دینا شروع کیا۔ وہ اللہ سے گِڑگڑا گِڑگڑا کر دُعا کر رہا تھا کہ ’’میری باری آنے تک راشن ختم نہ ہو۔‘‘ اللہ کےفضل سےاُس کو باری آنے پر راشن مل گیا تھا۔ اُس کے بعد دو چار ہی لوگوں کو ملا اور پھر دروازہ بند ہو گیا۔ اُس نے تھیلا پکڑ کر شُکر ادا کیا اچھا خاصا سامان تھا۔ آٹا، چاول، گھی، پتّی، شکر، دالیں، چنے، کھجور، شربت بیسن… سبھی کچھ تھا۔ خوشی سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انیلا اور بچّوں کے چہرے نظروں میں گھومنےلگے۔

’’آج بہو خُوش ہوجائے گی۔‘‘ اُس نے تھیلا اُٹھانے کی کوشش کی، مگر وہ بہت بھاری تھا، تو قریب کھڑے شخص کی مدد لے کر اپنے سر پر رکھوا لیا اور آہستہ آہستہ اسٹاپ کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ بھاری تھیلے کی وجہ سے چلنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ تبھی سامنے سے ایک نوجوان فرشتہ آگیا۔ ’’بابا جی! لاؤ میں اُٹھوا دوں۔ کدھر جانا ہے؟ اپنے وزن سے زیادہ تو سامان اٹھا رکھا ہے تم نے…‘‘ ’’ہاں بیٹا! اسٹاپ تک چھوڑ دے۔ وہاں سےچنگچی لےلوں گا۔‘‘ ’’اچھا، اچھا لاؤ، مجھے دے دو۔‘‘ اُس نے بہت آسانی سے سارا سامان اپنےسر پر رکھ لیا اور شفاعت کا ہاتھ بھی پکڑلیا۔ ’’اللہ تجھے خوش رکھے بیٹا۔ بالکل ٹھیک وقت پرآیا ہے تو…‘‘ ’’ہاں بابا! مَیں ٹھیک وقت پر ہی آتا ہوں۔ لوگوں کا بوجھ ہلکا کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘ نوجوان نے مُسکراتے ہوئے کہا۔

پندرہ بیس قدم چل کراُس نےشفاعت کاہاتھ چھوڑ دیا۔ اور دوسرا ہاتھ بھی تھیلےپررکھ لیا۔ شاید ایک ہاتھ سے سنبھل نہیں رہا ہوگا۔ شفاعت علی اُس کے پیچھے چل تو رہا تھا، مگر لڑکا جوان تھا۔ تیز قدموں سےآگے بڑھ رہا تھا۔ شفاعت کو اس کی رفتار سے چلنے میں مشکل ہورہی تھی۔ اس کی سانس پھولنے لگی تھی۔ قدم آہستہ ہونے لگے۔ لڑکا پندرہ بیس قدم آگے نکل گیا تھا۔اب شفاعت مزید تیز نہیں چل سکتا تھا۔ اُس کا سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ وہ دھپ سے زمین پر بیٹھ گیا۔ 

لڑکے نے پلٹ کر دیکھا اور اُسے زمین پر بیٹھا دیکھ کر مُسکرایا، پھر مزید تیز قدموں سےچلتاچنگچی تک جا پہنچا۔ شفاعت نے دیکھا، اُس نے تھیلا چنگچی میں رکھ دیا تھا۔ شفاعت نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکنا چاہا۔ جواب میں لڑکے نے بھی ہاتھ ہلایا، مگریہ اشارہ الوداعی تھا۔ وہ لڑکا چنگچی میں بیٹھ چُکا تھا اور چنگچی چل پڑی تھی۔ شفاعت نے چیخنے کی کوشش کی، مگر آواز اس کے حلق ہی میں پھنس کر رہ گئی۔ وہ پتھرائی آنکھوں سے چنگچی کو دور جاتا دیکھتا رہا۔

اُس کو انیلا کا چہرہ یاد آیا۔ راشن کے نام پر اس کا چہرہ کیسا کِھل گیا تھا۔ وہ انتظار کر رہی ہو گی۔ اُس نے اٹھنے کی کوشش کی، مگر ٹانگوں نے جیسے جواب دے دیا تھا۔ کسی بھلے آدمی نے سہارا دے کر کھڑا کیا اورپوچھا،’’بابا جی! گرگئے تھے کیا…!!‘‘ ’’وہ…را…شن…‘‘اُس نے بمشکل کہا۔ ’’اب تو راشن ختم ہوگیا بابا! آج آخری دن تھا ناں۔‘‘