اسلام آباد رپورٹ:، رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج ،مسٹر جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کی ملازمت سے برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بطور ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ پنشن اور دیگر مالی مراعات کا اہل قراردیدیا ہے، عدالت نے انکی آئینی درخواست منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ 62سال کی عمر کی آئینی حد عبور کرنے کے بعد انہیں بطور جج تو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن بطور ریٹائرڈ جج وہ پنشن سمیت تمام تر مالی مراعات کے اہل ہیں، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں الزامات ثابت کرنے کا موقع دیا نہ روبرو کروایا، عدالت نے کہا کہ سپریم کونسل پر لازم تھا کہ انکوائری کراکر تعین کرتی کہ درخواست گزار جج اور جواب گزار جسٹس انور کانسی اور فیض حمید وغیرہ میں سے کون سچا، کون جھوٹا؟ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ججوں کو محض سپریم جوڈیشل کونسل اور شکایت کنندگان کی پسند و نا پسند پر نہیں چھوڑا جاسکتا، حال ہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف شکایات پر 14 شہادتیں قلمبند کی گئیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے 23 جنوری 2024 کو جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے انہیں جج کے عہدہ سے ہٹانے کیخلاف دائرآئینی درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جوکہ جمعہ کے روز جاری کیاگیا ہے ، 22 صفحات پر مشتمل یہ تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ نے قلمبند کیا ہے، جس میں فاضل عدالت نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو غیر آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے 11 اکتوبر2018 کو اس وقت کے وزیراعظم (عمران خان) اور انکی کابینہ کی سفارش پر صدر عارف علوی کی جانب سے جاری انکی برطرفی کے نوٹیفکیشن کو بھی کالعدم قرار دیدیا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ جج کی تمام مراعات دی جائیں، عدالت نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اس عدالت(سپریم کورٹ) میں مقدمہ سماعت کیلئے تاخیر سے مقرر ہونے کی وجہ سے درخواست گزار، جج کی قواعد و ضوابط کے مطابق ہائی کورٹ کے ایک جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال پوری ہو چکی ہے، جسکی بناء پر انہیں اس عہدہ پر بحال نہیں کیا جاسکتا ہے۔