زمانہ بدلتا ہے اور زمانے کا ساتھ دینا ہو شمند ی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی خواتین کی تعدادآہستگی کے ساتھ بڑھ رہی ہے جنہوں نے حالات یامختلف وجوہ کی بنا پر شادی نہیں کی یا شادی ہوئی لیکن چند برسوں بعد اختلافات کے باعث علیحدگی ہوگئی۔ خودمختار خواتین میں ان کو بھی شامل کر لیجئے جن کو خوشگوار ازواجی زندگی نصیب ہے، مگر شوہر کی اجازت اور اس کے تعاون سے انہیں بھی نیم خو د مختاری درکار ہے۔ اچھی زندگی وہی ہے جب عورت انحصار کرنے پر مجبور نہ ہو بلکہ دونوں ایک دوسرے کو آگے بڑھنے اور خوش رکھنے میں مدد گار ہوں۔
کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے ۔ یہ بات پرانی ہوئی۔ ہمارا تجربہ ہے کہ کامیاب عورت کے پیچھے ایک مرد ہوتا ہے۔ گویا کامیابی دونوں کیلئے ہے اور ایک دوسرے کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ مردوں کا خود مختار ہونا آسان نظر آتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی انگریزی کے پروفیسر اور مصنف کہا کرتے تھے کہ میرے گلے میں ایک بھاری پتھر ڈال دیا گیا ہے جسے میں ساری زندگی لئے پھر تا رہا ہوں۔ ہمارے ارد گرد بہت سے مردوں کا یہی حال ہے لیکن ان میں اس اعتراف کی سکت نہیں۔
عورتوں کا خو د مختار ہونا زیادہ کٹھن ہے۔ ہمارا معاشرہ مردانہ معاشرہ ہے اس کے لیے پدرسری ، پدر شاھی یا پدرانہ نظام کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ لیکن بات سیدھی ہے کہ مرد کی حکمرانی ہے۔ ہمار ے بیشتر قوانین اور تمام تر روایات مردوں کی حمایت کرتی ہیں۔ اور ہمارا مذہب جب عورتوں کے حقوق بیان کرنے لگتا ہے تو اسے روایات غصب کرلیتی ہیں۔ بیٹیاں باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں، لیکن یہ لاڈ صرف چھوٹی چھوٹی فرمائشوں تک محدود ہوتاہے ۔ سنجیدہ معاملات میں وہ بڑی آسانی سے روایات کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹیوں کےسامنے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔
محمود غز نوی کے دور میں البیرونی نے کتاب الہند لکھی ۔اسے پڑھتے ہوئے یہ بات میرے ذہن میں اٹک گئی جب اس نے بڑے تعجب سے اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ ہندوستان کے مرد اہم معاملات میں اپنی عورتوں سے مشورہ کرتے ہیں۔
لیجئے عورتوں کی خودمختار ی پر ہم نے پہلا قدم اٹھا لیا۔ اگلا قدم تعلیم نسواں ہے۔ میری پچھلی نسل میں اکاد کا عورتوں کے سوا کسی نے اسکول یا کالج کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ میری ہمعصر نسل میں لڑکیاں اسکول تو جانے لگیں لیکن ان کی تعلیم لڑکوں سے جدا گانہ تھی۔ انٹر یا بی اے کافی سمجھا جاتا تھا۔ میڈ یسن کسی نے پڑھ لیا تو پڑھ لیا ورنہ انجینئرنگ، وکالت، اکاونٹنسی شجر ممنو عہ تھا۔ ہاں آج کی نسل کو یہ سہولت حاصل ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے جتنے شعبے ہیں ان میں سے ہر ایک میں لڑکیاں ہیں ،یہ الگ کم یا زیادہ یہ الگ بات ہے۔ ہمارا متوسط طبقہ یہاں تک تو آگیا لیکن عورتیں ملازمت کریں تو گھر کون سنبھالے گا اور بچّوں کی دیکھ بھال سے تو مفر نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے جن دوستوں نے چالیس سال یا پچاس سال پہلے مغربی ممالک کی شہریت اختیار کی انکی سوچ بھی یہی ہے۔ مجبوری میں تو وطن ِعزیز میں بھی عورتیں اسکول ٹیچر ہو جاتی ہیں۔ لیکن پروفیشن اختیار کریں تو خود مختار ی کی طرف پیش قد می دیکھ کر مرد خو فزدہ ہوجاتے ہیں۔
مغربی معاشر ہ بھی کچھ ایسی ہی ذہنیت رکھتا ہے ،بس ایک قدم کا فرق ہے۔ میاں بیوی دونوں اپنی اپنی فیلڈ میں کام کرتے ہیں، لیکن بیوی اپنے کیر یر میں آگے بڑھنے لگے اور اس کی آمدنی شوہر سے زیادہ ہوجائے تو نا چاقی کا آغاز ہوجاتا ہے اور شوہر کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
چلئے شادی کے بندھن والی خواتین کے لیے اتنا ہی کہا جاسکتا ہے۔ ہمارا اصل موضوع مرد کے بغیر زندگی گذارنے والی خواتین ہیں۔ جنہوں نے کبھی شادی نہیں کی یا جن کی علیحدگی ہوگئی اور ان کے ساتھ ایک دوبچے بھی ہیں۔ یہ زندگی کی گاڑی اکیلے کھینچتی ہیں۔ کیا یہ اکیلے پن کا شکار بھی ہیں؟
جب کوئی کام آپ اکیلے انجام دیتے ہیں تو اس پر فخر کرتے ہیں کہ کسی نے آپ ساتھ نہ دیا لیکن آپ نے پروا نہ کی اور اکیلے ہی جُت گئے ۔ اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔ یہی صورت اکیلی خواتین کی ہے۔ میں انہیں خود مختار خواتین کہتا ہوں۔جو اکیلے پن سے نہیں گھبراتیں نہ تنہائی انہیں کاٹتی ہے ۔ وہ خود اپنے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہیں۔
ان کے پاس موقع ہوتا ہے کہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں، اپنے کاموں میں چیلنج قبول کریں۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر کتابیں پڑھتی ہیں ۔سوشل میڈیا پر متحرک رہتی ہیں۔ اور درس میں جانا شروع کردیتی ہیں۔ ان کے علم کے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ہم خیال لوگوں سے مل بھی لیتی ہیں۔ وہ ان مشا غل میں اس لیے نہیں پڑتیں کہ وہ اکیلا پن دور کرنا چاہتی ہیں بلکہ ان سے وہ انرجی حاصل کرتی ہیں، جس سے ان کی اکیلی شامیں پر مسرت ہوجاتی ہیں۔
خود مختار خواتین اپنی صحت کا خیال رکھتی ہیں۔ وہ غذا ہو، ورزش ہو، سورج کی روشنی اور تازہ ہوا۔صحت مند جسم، ذہنی صحت کا ضامن ہوتا ہے۔ انہیں قوی ہونا ہے، کیوںکہ ان پر بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ دفتر یا کاروبار کے ساتھ بچوں کی پرورش ،ماں باپ کی خدمت ، ہمسائے اور برادری نبھانا اور یہ سب ان کے لیے طما نیت کا باعث ہے۔
تمام خو دمختار خواتین میں ایک بات مشترک ہوتی ہے ۔ وہ یہ کہ وہ منفی سوچ رکھنے والوں سے دوررہتی ہیں۔ نہ انہیں شکوہ شکایت والے لوگ پسند ہیں نہ منہگائی کا رونا رونے والے۔ خودمختار خواتین کو بہت سے لوگوں میں گھر ے رہنا خوش نہیں آتا۔ ان کا حلقہ منتخب ہوتا ہے ۔ ہر کس وناکس کی اس میں رسائی نہیں ہوتی۔ یہ انہیں بہت ناگوار گذرتا ہے جب ان پر کوئی ترس کھائے یا ہمدردی جتائے ایسے لوگوں کیلئے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں۔ہاں ایک بات بہت ضروری ہے۔
اپنے آپ کو محفوظ رکھنا۔ مشرقی روایات کا حامل معاشرہ ہو یا مغرب کی روشن خیالی کا۔ اکیلی عورت دیکھ کر ہر ایک کے ذہن میں خیالات آتے ہیں۔ ان سے بچنا ہے۔ عورت کا سب سے بڑا حصار اس کاپر اعتماد ہونا ہے۔ بہت سے مرحلوں سے وہ صرف اعتماد کے بل بوتے پربا حفاظت گذر جاتی ہیں۔ لیکن زندگی کی بدصورتیاں طرح طرح سے سراٹھاتی ہیں، اس لئے اسےکئی دوسرے حفاظتی بند باندھنے پڑتے ہیں۔ خودمختار خواتین کے لیے اکیلے زندگی گذارنا لازم نہیں، جب کوئی ہم خیال قدم سے قدم ملانے والا مل جائے تو برابری کا بندھن اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔