کراچی(رفیق مانگٹ)برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ بھارت اس وقت دو بلاک میں تقسیم ہے‘ جنوبی بلاک ابھرتا اور ترقی کرتا جبکہ شمالی بلاک پسماندہ ہے‘مودی کی جماعت کا جنوبی بلاک میں اثرو رسوخ کم ہے ۔
جنوبی اور شمالی بلاک کی بڑھتی جغرافیائی تقسیم سے ہندوستان کے ٹکڑے ہونے کا امکان ہے۔ شمالی بلاک میں ہندی زبان، مردانہ ہندو شناخت کی سیاست اور مسلمانوں پر ظلم وستم ہے۔
جریدہ لکھتا ہے کہ مودی ہندوستان کےموجودہ دہائیوں میں سب سے طاقتور وزیر اعظم ہیں ، ان کے معاشی ترقی کے ساتھ ایجنڈے میں سرفہرست ہندوپاپولزم ہے۔
جنوب نیا ہندوستان جہاں دولت مند ہیں، یہاں سے مودی کی پارٹی کو ووٹوں کا کم حصہ ملتا ہے ،بی جے پی غریب، زیادہ آبادی والے، دیہی، ہندی بولنے والے شمال پر انحصار کرتی ہے۔ یہ تقسیم انتخابات میں اہم مسئلہ ہو گی۔
طویل مدت میں تقسیم خطرناک صورت حال میں آئینی بحران پیدا کر سکتی ہے اور ہندوستان کی سنگل مارکیٹ کو توڑ سکتی ہے۔ جغرافیائی تقسیم اکثر ممالک کی ترقی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ہندوستان کی 28ریاستوں میں سے جنوبی پانچ ریاستیں آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالہ، تامل ناڈو اور تلنگانہ میں 20فی صد آبادی ہے، یہ شہری اور امیر ہیں ،بہتر حکومت، تعلیم اور املاک کے حقوق بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں ،اس بلاک نے انٹرپرائز اور نفیس مالیاتی نظام کو فروغ دیا ۔1993میں جنوب نے ہندوستان کے جی ڈی پی میں 24فیصد حصہ ڈالا ، اب اس کا حصہ31فیصد ہے۔ غیر ملکی مالکان کاروباری مواقع کے لیے جنوب کی طرف پرواز کرتے ہیں۔
الیکٹرانکس برآمدات کا 46فی صد، ٹیک میں 46فی صد، صنعتی برآمدات کا 66فی صد جنوبی بلاک میں ہے ،کثیر القومی کمپنیوں کے عالمی آڈیٹرز، وکلاء، ڈیزائنرز، آرکیٹیکٹس اور دیگر پیشہ ور افراد کا 79فی صدمرکز جنوب میں ہیں۔ اس کی سیاست شمال سے الگ سیارے پر ہے۔مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کا جنوب میں بس نہیں چلتا ۔
2019میں بی جے پی کے صرف11فی صد ووٹرز اور اس کی پارلیمانی نشستوں کا محض10فیصد جنوب سے تھا۔ مودی کے پاس تمام انتخابی کامیابیوں کے لیے حقیقی قومی مینڈیٹ کا فقدان ہے۔یہ جغرافیائی کشیدگی بھارت کو توڑ دے گی۔
جنوبی بلاک بھی 2026کے بعد ہار سکتا ہے جب پارلیمانی حلقہ بندیوں کو دوبارہ تیا کیا جائے گا، جنوب کی خواہشات کے خلاف، بی جے پی ہندی کو قومی زبان کے طور پر نافذ کر سکتی ہے۔