محمّد عبدالمتعالی نعمان
رمضان المبارک کے بابرکت اور مقدّس مہینے کے اختتام پر آنے والی رات ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی شبِ عیدالفطر، جو’’ چاند رات‘‘ کے نام سے معروف ہے، خصوصی برکتوں، رحمتوں، بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت کی حامل ہے۔ اِس رات اللہ تبارک و تعالیٰ اِس ماہِ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخی اور فیّاض ہو کر اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، مگر یہ انتہائی کم نصیبی کی بات ہے کہ لوگ عموماً اس سے غافل رہتے ہیں اور نتیجتاً اِس عظیم رات کے فیوض و برکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
حدیثِ مبارکہؐ میں اِس شبِ عید کو ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ (انعام کی رات) سے پکارا گیا ہے،جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ ثواب کی نیّت سے عبادت کرنے والوں کے لیے بڑی سعادتیں اور خوش خبریاں ہیں کہ جو اپنی عبادات اور روزوں سے ماہِ مقدّس کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے، اللہ کی رحمت اور مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا، جہنّم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کیا اور یوں اللہ تعالیٰ کی تجلیات، انوارات اور انعامات کے حق دار ٹھہرے۔
’’لیلۃ الجائزہ‘‘ پر فرشتوں میں بھی خوشی کی دھوم مچی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن پر تجلّی فرما کر دریافت فرماتا ہے: ’’اُس مزدور کی اُجرت کیا ہے، جس نے اپنی مزدوری پوری کرلی؟‘‘ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ’’ اُسے پوری پوری جزا اور اُجرت ملنی چاہیے۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ’’ اے فرشتو! تم گواہ رہو، مَیں نے اُمّتِ محمدﷺ کے روزے داروں کو اُجرت دے دی‘‘، یعنی روزے داروں کو بخش دیا۔ نیز، احادیثِ مبارکہؐ میں بھی شبِ عید (لیلۃ الجائزہ) کی بہت فضیلت آئی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ امام الانبیاء، حضرت محمّدﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمّت کو رمضان شریف سے متعلق پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں، جو پہلی اُمّتوں کو نہیں ملیں۔ وہ یہ کہ٭ اُن کے (روزے دار کے) منہ کی بُو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔٭ اُن کے (روزے دار کے) لیے مچھلیاں تک دُعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔٭جنّت ہر روز اُن کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقّتیں اپنے اوپر سے پھینک کر میری طرف آئیں۔‘‘٭اس میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔٭رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’کیا یہ شبِ مغفرت،’’شبِ قدر‘‘ ہے۔‘‘آپﷺ نے فرمایا،’’ نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت اُسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔‘‘(مسند احمد، بزار،بیہقی)
لیلۃ الجائزہ دراصل زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول رہنے کی رات ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جو شخص ثواب کی نیّت (یقین) کرکے دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) میں جاگے (اور عبادت میں مشغول رہے)، اُس کا دل اُس دن نہ مرے گا (مُردہ نہیں ہوگا)، جس دن سب کے دل مرجائیں گے (یعنی فتنہ و فساد کے وقت اور قیامت کے ہول ناک اور دہشت ناک دن میں یہ محفوظ رہے گا)۔‘‘ (ابنِ ماجہ)ایک اور حدیثِ مبارکہؐ میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کے لیے) جاگا، اُس کے واسطے جنّت واجب ہوجائے گی۔(وہ پانچ راتیں یہ ہیں)(1)لیلۃ الترویہ (8 ذی الحجہ کی رات)، (2) لیلۃ العرفہ (عرفہ 9 ذی الحجہ کی رات)، (3) لیلۃ النحر (10ذی الحج، عیدالاضحیٰ کی رات)، (4) لیلۃ الجائزہ (عیدالفطر کی رات) اور (5) شبِ برأت (پندرہویں شعبان کی رات)۔‘‘ (ترغیب و ترہیب)یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابۂ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ہمارے اسلافؒ اِن راتوں کی قدر فرماتے اور ان میں عبادات، ذکر و اذکار اور دعا و مناجات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ۔فقہاء نے بھی عیدین کی راتوں میں جاگنا مستحب لکھا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ ’’پانچ راتیں دُعا کی قبولیت کی ہیں۔(1) شبِ جمعہ(1) شبِ عیدالفطر(3) شبِ عیدالاضحیٰ( 4) رجب کی پہلی شب اور(5) شعبان کی پندرہویں شب۔‘‘
لیلۃ الجائزہ، اللہ ربّ العزّت کے خصوصی فضل و کرم کی حامل اور بہت عظمت و فضیلت والی رات ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے طرف سے اُمّتِ محمّدیہؐ کے لیے ایک خصوصی تحفہ ہے، جس کی اس کے بندوں/مسلمانوں کو بے حد قدر کرنی چاہیے اور اِس مبارک شب کے قیمتی و بابرکت لمحات کو خرافات میں ضائع کرنے کی بجائے توبہ و مناجات، اللہ کے ذکر و اذکار، نوافل اور دعاؤں میں بسر کیا جائے۔ عموماً لوگ اِس رات میں شب بے داری میں عبادات کا کوئی اہتمام نہیں کرتے، بلکہ اسے سیرو تفریح، پارلرز، ہوٹلز میں کھانے پینے، گانے سُننے اور بازاروں میں خریداری کی نذر کردیتے ہیں، یہاں تک کہ بعض تاجر کاروبار میں اِس قدر مشغول رہتے ہیں کہ نمازِ عید تک نکل جاتی ہے، جو انتہائی محرومی کی بات ہے۔ لہٰذا، پوری کوشش کریں کہ یہ مبارک رات کسی قیمت خرافات کی نذر ہوکر ضائع نہ ہونے پائے۔
ہم نے مہینے بَھر، ربّ ِ کریم کے ساتھ جو تعلق استوار کرنے کی سعی کی، اُسے اللہ تعالیٰ سے معافی، بخشش، مغفرت اور جہنّم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے میں صَرف کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری مہینے بَھر کی محنت اور جدوجہد، جو کہ ہم نے ربّ سے اپنا ٹوٹا رشتہ استوار کرنے میں صَرف کی اور اب جب کہ ہمارا ربّ ہم سے راضی ہورہا ہے، اپنے مومن بندوں اور بندیوں پر انعامات کی برکھا برسانے والا ہے، ہماری کسی معمولی نافرمانی یا غلط عمل سے خدانہ خواستہ ضائع ہوجائے، لہٰذا، شبِ عیدالفطر کو، اللہ تعالیٰ سے اپنی عافیت و سلامتی، مغفرت اور حمت طلب کرتے ہوئے اِسے خُوب یادِ الٰہی میں گزارنا چاہیے۔