اسلام آباد(رپورٹ:رانا مسعو د حسین ) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کیلئے 7 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیدیا ہے، چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کی سربراہی کرینگے، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ میں شامل ہیں، بینچ کل3اپریل بروز بدھ سے کیس کی سماعت کریگا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔دوسری جانب جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے پیر کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے، تصدق جیلانی کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن کے شرائط و ضوابط ججز خط سے ہم آہنگ نہیں،خط آئین کے آرٹیکل 209 کے پیرامیٹرز کے اندر نہیں آتا، معاملہ ادارہ جاتی سطح پر اٹھایا گیا ہے،چیف جسٹس معاملے کو حل کر سکتے ہیں، کمیشن اسکی انکوائری کیلئے مناسب فورم نہیں، اعتماد کرنے پر آپکا شکریہ۔تفصیلات کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے سوموار کے روز وزیر اعظم میاںشہباز شریف کو خط لکھ کر کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے، انہوںنے اپنے خط میں ان کی ذات پراعتماد کرنے پر وزیراعظم میاں شہباز شریف، انکی کابینہ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انہوںنے خط میں کہا ہے کہ میں نے چھ ججوں کے اس خط، کابینہ کی جانب سے تشکیل دی گئی،اس کمیشن کی شرائط و ضوابط( ٹی اوآرز) اورآئین کے آرٹیکل 209 کا بغور جائزہ لیا ہے،یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین اور اسکے چیئرمین کے نام لکھا گیا ہے جو کہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی ہیں، اور میرے لیے یہ عدالتی ترجیحات کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا کہ ایک ایسا معاملہ جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ اختیار میں آ سکتا ہے، میں اس کے حوالے سے انکوائری کروں، میری یہ بھی رائے ہے کہ بادی النظر میں اس کمیشن کی شرائط و ضوابط اس خط سے ہم آہنگ نہیں ہیںکیونکہ اس خط کے آخر میںان6 ججوںنے حکومتی اداروں یا خفیہ اداروں کی جانب سے ججوں کے پیشہ وارانہ امور میں مداخلت،دھمکیوں، ہراساں کرنے جیسے معاملات کی شکایت کے فورم اور متاثرہ جج کے ممکنہ رد عمل کے حوالے سے کوئی قانونی حل نکالنے کے لئے ادارہ جاتی سطح پرمشاورت کی استدعا کی ہے،انہوں نے کہا ہے کہ یہ خط آئین کے آرٹیکل 209 کے پیرامیٹرز (حدود)کے اندر ہی نہیں آتا ہے، چونکہ یہ معاملہ ادارہ جاتی سطح پر اٹھایا گیا ہے،جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جو کہ اس ادارہ کے سربراہ بھی ہیں،اس معاملے کو حل کر سکتے ہیں، درج بالا وجوہات کی بناء پر یہ کمیشن ان معاملات کی انکوائری کیلئے مناسب فورم نہیں ہے، اسلئے میں خود کو اس معاملہ سے علیحدہ کرتے ہوئے اسکی سماعت سے معذرت کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر عدالتی معاملات میں انتظامیہ اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی دخل اندازی کا معاملہ اٹھایا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے انتظامی سطح پر فل کورٹ میٹنگ میں اس معاملہ کا جائزہ لیا تھا اور اکثریتی ججوں نے اس معاملہ کو وزیر اعظم،میاں شہباز شریف کے سامنے اٹھانے کا مشورہ دیا تھا،اگلے روز وزیراعظم میاںشہباز شریف نے سپریم کورٹ میں آکر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورسنیئر ترین جج، جسٹس منصور علی شاہ سے ملاقات کی تھی اور اس معاملہ کی انکوائری کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن بنانے پر اتفاق کیا گیاتھا۔ بعد ازاں وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس،مسٹر جسٹس (ریٹائرڈ) تصدق حسین جیلانی پر مشتمل یک کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی تھی۔