تحریر: بیرسٹر عثمان چیمہ… لندن عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان بحیثیت ایک پاکستانی شہری میں اس خط کے ذریعے آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ ایک ایسی نا انصافی جو اپنی مثال آپ ہے۔ ایک ایسی قانون شکنی جس کا کسی بھی لحاظ سے کوئی جواز نہیں بنتا۔ ایک ایسی غیر آئینی روایت جس سے دیگر ہزاروں خواتین و حضرات کے بنیادی حقوق دن رات پامال ہو رہے ہیں۔ جناب عالی۔ میں آپ کے علم میں لا رہا ہوں کہ پاکستان کی اڈیالہ جیل میں ایک ایسا قیدی بھی ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے لاڈلہ قیدی ثابت ہو رہا ہے جس کو تمام قائدے قانون پس پشت ڈال کر وہ سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں جن کی نا تو مروجہ ملکی قوانین اور نا ہی جیل کے ذیلی قوانین میں کوئی گنجائش ہے۔ یہ ایک ایسا اکیلا قیدی ہے جس کے استعمال میں تین تین کمرے ہیں۔ یہ ایک ایسا قیدی ہے جس کو خصوصی کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا قیدی ہے جس کو ورزش کے لئے اپنی برقی مشینیں جیل لانے اور استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے ہر ہفتے میں قریب 34-35ملاقاتیوں سے ملنے دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا قیدی ہے جس سے مختلف نوعیت کے مقدمات میں قید با مشقت ہونے کے باوجود مشقت لینا تو درکنار، الٹا اسکی خدمت کے لئے کئی مشقتی رکھے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا انوکھا قیدی ہے کہ جس کی بیرک کی مرمت و تزئین کے لئے ایک کروڑ روپے سے زائد خرچ کئے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا نایاب قیدی ہے، جس کے چھ ماہ کے قلیل عرصے کے جیل میں قیام کے دوران 35 لاکھ سے زائد روپئے صرف اس کے کھانے پرصرف ہو چکے ہیں۔ جب جیل حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس ضمن میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ یہ سب رعایتیں جیل کے قوانین کے بر عکس ہیں لیکن ہم مجبور ہیں کہ ان سب کے لئے عدالتی حکم دئیے گئے ہیں۔ تو جناب چیف جسٹس، اب میرا آپ سے انتہائی مودبانہ سوال ہے کہ اگر یہ ساری غیر قانونی سہولت کاری ماتحت عدلیہ کی جانب سے جائز قرار دلوائی گئی ہے تو کیا آپ عدالت عظمیٰ کے چیف کی حیثیت سے کسی بھی ما تحت عدالت کی طرف سے دیئے گئے ایسے خلاف آئین و قانون حکم یا احکامات پر خاموشی برتیں گے؟ کیا یہ دیگر ہزاروں قیدیوں کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے کہ انہیں تو بھیڑ بکریوں کی طرح چھوٹی چھوٹی بیرکوں میں ان گنت تعداد میں رکھا جائے اور ایک قیدی کو تین تین کمرے الاٹ کر دئیے جائیں؟ کیا یہ امتیازی سلوک نہیں ہے کہ ایک قیدی کو اسکی من پسند لاکھوں روپئے کی خوراک دی جائے اور دوسرے قیدیوں کو صرف ایک خاص مقدار کا راشن۔ کیا یہ ہزاروں دیگر قیدیوں کے بنیادی حقوق کا استحصال نہیں ہے کہ وہ مخصوص اور گنے چنے افراد سے ملاقات کر سکیں اور ایک قیدی ہر ہفتے اوسطاًدرجنوں لوگوں سے ملاقاتیں کرے۔ کیا یہ قوم کے پیسے کا ناجائز اور خلاف قانون استعمال نہیں کہ محض ایک قیدی کے لئے کسی بیرک کی مرمت، تزئین و آرائش پہ کروڑوں روپئے خرچ کر دئیے جائیں؟ عزت مآب۔ اس ایک قیدی پہ خرچ آنے والا ایک ایک روپئہ قوم کی امانت ہے۔ اور یہ سب کچھ سن کر، دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ کس طرح پاکستانی قوم کا پیسہ بے دریغ لٹایا جا رہا ہے۔