• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ماضی میں عید پر سپر ہٹ فلمیں پیش کی گئیں

عیدالفطر، خُوشیوں، مسرتوں، چاہتوں اور روٹھے ہوئے دوستوں کو منانے کا تہوار ہے، روزوں کے بعد تمام لوگ چاند رات کو شاپنگ کرتے ہیں اور عید کی نماز کے بعد سیر و تفریحی کے لیے نِکل جاتے ہیں۔ شہریوں کے لیے سب سے سستی تفریح سنیما بینی ہوا کرتی تھی، جسے اب بہت مہنگا کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے آج کل سنیما گھروں میں سناٹا ہے۔ امسال صرف ایک اُردو فلم ریلیز ہورہی ہے، جس کی وجہ سے فلم بینوں میں بہت مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔

پاکستان فلم انڈسٹری کا شان دار ماضی رہا ہے۔ عیدالفطر پر ایک درجن فلمیں ریلیز ہوا کرتی تھیں اور وہ ریکارڈ بزنس بھی کرتی تھیں۔ 2 اگست 1981ء میں عیدالفطر پر سلطان راہی اور انجمن کی تین فلمیں ایک ساتھ سنیما گھروں کی زبنت بنیں اور تینوں نے ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ ان فلموں کے نام آج بھی فلم بینوں کو یاد ہیں۔ ’’سالا صاحب‘‘، ’’چن وریام‘‘ اور ’’شیر خان‘‘ کی کام یابی نے سنیما گھروں میں ہائوس فل کے بورڈ آویزاں کر دیے تھے۔ اس زمانے میں عید کے موقع پر فلموں کی ریلیز کا جَشن سنیما گھروں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا تھا۔ 

ملک بھر میں سنیما گھروں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ اب ان سنیما کی جگہ شاپنگ مالز بن گئے ہیں۔ بعدازاں ملک کے چند بڑے شہروں میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ مہنگے سنیما ہائوس بنائے گئے، جس کی وجہ سے عام فلم بین پاکستانی فلموں سے دُور ہوتا گیا۔ ماضی میں دیکھیں تو قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ بھی 1948ء میں عیدالفطر پر ریلیز کی گئی تھی۔ 1949میں پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ نے عید پر ریلیز ہوکر سلور جوبلی اپنے نام کی تھی۔ یہ وہ دور تھا، جب سب دِل لگا کر کام کرتے تھے، اسی وجہ سے فلموں کا جادو سرچڑھ کر بولتا تھا۔ 

آہستہ آہستہ فلم انڈسٹری اپنے پائوں پر کھڑی ہوتی رہی، تو عید پر ریلیز کی جانے والی فلموں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1955ء میں عیدالفطر پر پانچ فلموں کے درمیان دَنگل ہوا۔ ہدایت کار عطاء اللہ ہاشمی کی فلم ’’نوکر‘‘ نے فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے۔ اس فلم نے گولڈن جوبلی اپنے نام کی۔ 1971ء میں فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی، اس برس عیدالفطر پر ایک ساتھ سات فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں۔ حسن طارق کی فلم ’’تہذیب‘‘ نے میدان مار لیا تھا۔ اداکار شاہد کی بطور ہیرو یہ پہلی فلم تھی۔ فلم میں رانی اور صبیحہ خانم نے لاجواب کردار نگاری کی تھی۔ 1973ء میں عید پر پانچ فلموں کے مابین مقابلہ ہوا۔ ’’دامن اور چنگاری‘‘ نے جیت اپنے نام کی۔ 

زیبا، محمد علی اور ندیم کی پرفارمنس کو سراہا گیا۔ اس زمانے میں فلموں کی موسیقی بھی کمال رنگ جماتی تھی۔ 1976ء میں عید پر سات فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں۔ سدھیر، سلطان راہی، محمد علی اور ممتاز کی فلم ’’ان داتا‘‘ نے سب سے زیادہ رنگ جمایا، آہستہ آہستہ عید پر ریلیز فلموں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ 1978ء میں 10فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ندیم اور بابرہ شریف کی لندن میں فلمائی ہوئی فلم ’’پلے بوائے‘‘ نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ 1985ء میں عید پر 13فلمیں سنیما گھروں میں لگائی گئیں۔ بابرہ شریف اور جاوید شیخ کی فلم ’’ہانگ کانگ کے شعلے‘‘ بے حد پسند کی گئی۔ بعد ازاں آہستہ آہستہ فلم انڈسٹری مسائل کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کئی برس تک شاہ کار فلموں کا سلسلہ تھم گیا تھا۔ 

جیو اور ہدایت کار شعیب منصور نے فلم ’’خدا کے لیے‘‘ اور ’’بول‘‘ بنائی تو سنیما گھروں کی خاموشی ٹوٹی اور فلم بینوں نے سنیما گھروں کا رُخ کرنا شروع کیا۔ بالی وڈ فلموں کی نمائش بھی پاکستانی سنیما گھروں میں ہونے لگی، جس کی وجہ سے مقابلے کی فضا قائم ہوئی۔2015ء میں عید پر ایک طرف سلمان خان کی سپرہٹ فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ لگی ہوئی تھی، تو دوسری جانب نئے ہدایت کار یاسر نواز کی فلم ’’رانگ نمبر‘‘ سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی۔ کم بجٹ کی اس فلم نے سلمان خان کی فلم کا مقابلہ کرتے ہوئے شان دار بزنس کیا۔ ٹیلی ویژن کے معروف اداکار دانش تیمور اور سوہائے علی ابڑو نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ 

بعدازاں یاسر نواز نے دانش تیمور اور ثناء جاوید (جو ان دِنوں کرکٹر شعیب ملک کی شریک حیات ہیں) کو بہ طور ہیرو ہیروئن فلم ’’مہرالنساء وی لب یو‘‘ کاسٹ کیا،مگر یہ فلم کام یاب نہ ہوسکی۔ عید فیسٹیول کے رِنگوں کو دوبالا کرنے کے لیے کچھ معیاری فلمیں پیش کی گئیں، لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکا۔ 

کرونا نے پاکستان فلم انڈسٹری کو غیر معمولی نقصان پہنچایا، جس کے بعد سے اب تک فلم انڈسٹری سنبھل نہ سکی۔ کرونا کے بعد 3مئی 2022ء کو عیدالفطر پر چار پانچ فلمیں پیش کی گئیں۔ ان میں سپر اسٹار صبا قمر اور زاہد احمد کی ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘، نیلم منیر اور احسن خان کی ’’چکر‘‘ ہانیہ عامر اور علی رحمان کی ’’پردے میں رہنے دو‘‘ اور عمران اشرف اور امر خان کی ’’دَم مستم‘‘ و دیگر مقامی فلمیں شامل تھیں۔

ان فلموں میں صرف ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ نے اپنی لاگت پُوری کی۔ باقی فلموں کے پروڈیوسر کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ 21اپریل 2023ءکی عیدالفطر پر بھی چار پانچ فلمیں ریلیز کی گیئں۔ ان میں سپر اسٹار فواد خان اور وسیم اکرم کی فلم ’’منی بیگ گارنٹی‘‘ میکال ذوالفقار، سعدیہ خان اور عائشہ عمر کی ’’ہوئے تم اجنبی‘‘ ابو علیحہ کی ’’دادل‘‘ اور ندیم چیمہ کی ’’ڈور‘‘ شامل تھیں۔ معروف ٹی وی اینکر کامران شاہد نے پہلی مرتبہ فلم ’’ہوئے تم اجنبی‘‘ کی ڈائریکشن دی تھی، ماضی کے سپر اسٹار شاہد نے اس فلم کو پروڈیوس کیا تھا۔ 

شان دار پروموشن کے باوجود بھی فلم باکس آفس پر کام یابی حاصل نہیں کرسکی، جب کہ دوسری جانب ہدایت کار فیصل قریشی کی ہدایت میں بننے والی پروڈیوسر شایان خان کی فلم ’’منی بیک گارنٹی‘‘ نے تھوڑا بہت بزنس کیا،شاید کسی حد تک اپنی لاگت پوری کی۔ فلم کی میگا کاسٹ میں عالمی شہرت یافتہ کرکٹر وسیم اکرم، فواد خان ، عائشہ عمر ، میکال ذوالفقار اور دیگر شامل تھے۔ 2023ء کی عیدالفطر پر فلموں کا خراب بزنس دیکھ کر فلم ساز مایوس ہوگئے اور پر کسی نے بھی عیدالفطر پر فلم ریلیز کرنے کی تیاری نہیں کی۔ 

ایسے میں معروف ہدایت کار وجاہت رئوف نے فیصلہ کیا کہ وہ 2024ء کی عیدالفطر پر اپنی نئی فلم ’’دغا باز دل‘‘ ریلیز کریں گے۔ اس مرتبہ صرف ایک اردو فلم ریلیز ہوگی۔ ’’دغا باز دل‘‘ کی کاسٹ میں مہوش حیات، علی رحمان، مومن ثاقب، لیلیٰ واسطی، عائشہ خان وغیرہ شامل ہیں۔ اُمید کی جارہی ہے کہ یہ فلم باکس آفس پر رنگ جمائے گی۔ 2024ء کی عیدالفطر پر ایک اُردو فلم کے ساتھ چار پشتو اور تین ہالی وڈ کی فلموں کی نمائش بھی کی جائے گی۔

ہم نے کوشش کی ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی چند فلموں پر ایک نظر ڈالیں۔ فلم انڈسٹری کی خراب صورت حال پر ہم نے ماضی کی ہیروئن سنگیتا بیگم سے بات کی تو انہوں نے سخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے زمانے میں فلم انڈسٹری سو فی صد تھی، جو اب ایک فی صد رہ گئی ہے۔

ہماری پاکستان فلم انڈسٹری کا تو بہت بُرا حال ہے۔ ہمارے زمانے میں عید پر فلموں کا میلہ لگتا تھا، کیا رونقیں ہوا کرتی تھیں، سنیما گھروں میں ٹکٹ نہیں ملتے تھے۔ ہاؤس فلم کے بورڈ لگ جاتے تھے۔ اب نہ جانے کب وہ خُوب صورت دَور واپس آئے گا۔ 600فلموں کے وِلن مصطفیٰ قریشی کا کہنا تھا عیدالفطر پر ایک اُردو فلم کی نمائش افسوس ناک صورت حال ہے۔ حکومت فلم انڈسٹری سرپرستی کرے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید