امریکا میں سات سو بچوں میں ایک بچہ ایسا پیدا ہوتا ہے جس میں ایک فاضل کروموسوم موجود ہوتا ہے۔ یہ فالتو کروموسوم خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ جسم کی ساخت، اعضاء کی بناوٹ اور دماغ کی بڑھوتری ، ہر ایک میں خلل ڈالتا ہے۔ اسے ڈاؤن سنڈروم کہتے ہیں۔
سنڈروم ایک نہیں بلکہ کئی طرح کے عارضوں کا مجموعہ ہے،اور ڈائون اس لئے کہ اسکی پہلی تشخیص ایک انگریز ڈاکٹر جان ڈاؤن نے کی تھی۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاؤن کا لفظ غلط فہمی پیدا کرتا ہے اس عارضہ کو ہمیں اپ سنڈروم کہنا چاہئے۔
اسپیشل بچوں کی ایک دوسری قسم ہے جسے اے ڈی ایچ ڈی کہتے ہیں ، اس بیماری کی پہلی پہچان تو یہ ہے کہ بچہ دیر تک کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتا یعنی Attention Deficit پھر مشاہدے نے بتایا کہ جن کا دھیان بہت جلدی بٹ جاتا ہے وہ ایک اضطراب اور بے چینی کی کیفیت میں رہتے ہیں تو اسمیں Hyperactivity کا اضافہ کیا گیا اور یوں ایک دوسرا سنڈروم یعنی کئی طرح کے روگ کا مجموعہ ایک بچے کے ساتھ جو ADHD کہلایا۔
اے ڈی ایچ ڈی سے ملتی جلتی اور بیماری ہے جسے آئوٹزم کہتے ہیں یعنی بچہ اپنے آپ میں مگن۔ اس حد تک کے خود سے ہی باتیں کرتا ہے۔ آوٹزم کی بہت سی شکلیں ہیں۔ یعنی جسمانی طور پر بالکل درست مگر ذہن کی نشونما بہت سست۔ اس کے شکار ایسے بچے بھی ہیں جنکی جسمانی ساخت میں بھی کمی بیشی ہے اور ذہن بھی اپنی عمر کے حساب سے پیچھے ہے۔
اس کا سبب یہ بتایا جا تا ہے کہ دماغ کا اگلا حصہ جسے Frontal Lobe کہتے ہیں اسکا سائز عام بچوں کے دماغ سے کچھ چھوٹا ہوتا ہے اور غالباََ دماغ کے مختلف حصوں کے رابطوں میں بھی کچھ گڑ بڑ پائی جاتی ہے۔ آؤٹزم اور اے ڈی ایچ ڈی میں ایک فرق ہے کہ ADHDکسی بھی موضوع پر توجہ مرکوز نہیں کرسکتا جبکہ آؤٹسٹک بچے اپنے پسند کے مضمون کو دیر تک پڑھ سکتے ہیں۔
آئوٹزم کے اعتبار سے کینیڈا کا شمار دنیا کے بہترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ جہاں اسپیشل بچہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سولہ سال تک اسکے لئے اسکولوں میں علیحدہ کلاسیں ہوتی ہیں۔ ماں باپ کو انکی تربیت، کھلونے، ٹیوشن، سوئمنگ اور میوزک کے سبق ہر چیز کیلئے وظیفہ ملتا ہے۔
اٹھارہ سال کی عمر تک انکی جزوی دیکھ بھال ہوتی ہے ۔ اور انہیں زندگی گزارنے کا کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جاتا ہے۔ وہ کوکنگ بھی ہوسکتا ہے، آرٹ اور کرافٹ بھی یا کمپیوٹر ڈیزائننگ۔ ناروے میں باقاعدہ مونٹرنگ کا نظام ہے کہ اگر کسی اسپیشل بچے کی دیکھ بھال میں کوئی کمی ہورہی ہے تو اسے اپنے سنٹر میں ماں سے علیحدہ کر کے رکھتے ہیں۔
ایسے بچے اللہ لوک کہہ کر گلیوں محلوں میں چھوڑ دیے جاتے تھے اور وہ زندگی گھسیٹتے ہوئےزندگی تمام کردیتے ہیں۔ آئوٹزم کسی ایک بیماری کا نام نہیں نہ ہی آئوٹزم والے کوئی دو بچے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بس ان میں ایک بات مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے آنکھیں ملا کر بات نہ کرنا۔ایک دوسری کیفیت کم یا زیادہ ان میں یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ نیم غنودگی کی حالت میں ہوتے ہیں۔
اکثر بیٹھے بیٹھے دوڑ لگانے لگتے ہیں یا اپنی جگہ پر اچھلنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب وہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اپنے کو جگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں تو زندگی میں مثبت رویہ رکھنا سب کیلئے اچھا ہے ۔ لیکن اسپیشل بچوں کے والدین کے لئے لازم ہے کہ اچھی سوچ اپنائیں۔ دکھ ہر ایک کی زندگی مین ہے۔ کوئی اولاد کو ترستا ہے ،کسی کے بچے غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں اور کوئی ایسا کثیر العیال کہ پائوں چادر سے باہر۔
ان بچوں میں جو بھی کمی ہوتی ہے وہ ماں باپ کی محنت اور دوستوں کے تعاون سے بڑی حد تک پوری ہونا ممکن ہے۔ ہمیشہ اپنے اسپیشل بچے کو اپنے ہمراہ ہر جگہ لے جائیں۔ میزبان کا فرض ہے وہ اس سے حسنِ سلوک سے ملے اور اسکی طرف توجہ دے۔
آپ یقین نہ کریں مگر ایسے نیک دل لوگ موجود ہیں جو اسپیشل بچے کے والدین کو جنتی قرار دیتے ہیں ۔ ہم نے انہیں پہلے معذوری سے نکال کر اسپیشل بچے کہا۔ اب ہم انہیں Differently Abled کہتے ہیں۔ اب ہماری توجہ ان کی معذوری سے ہٹ کر ان کی صلاحیت پر مرکوز ہوگئی ہے۔