روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن آئندہ ہفتے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا میں1947ء میں آزادی کے بعد اپنی 18ویں لوک سبھا منتخب کرنے جارہی ہے۔ آزادی کے صرف ڈھائی سال بعد جنوری1950ء میں انڈیا نے اپنے آئین کو نافذ کردیا تھا جس کے تحت انڈیا ایک ساورن سوشلسٹ، سیکولر ڈیمو کریٹک ریپبلک ہوگا۔ انڈیا میں حالیہ منعقد ہونے والے انتخابات میں97کروڑ انسان اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ گویا دنیا کی کُل آبادی کا ہر آٹھواں انسان انڈیا کا ووٹر ہوگا۔ یوں تو انڈیا میں قانون بن چکا ہے کہ لوک سبھا میں آئینی طور پر ایک تہائی نشستیں خواتین کو دی جائیں گی لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ انڈیا میں ہونے والے انتخابات میں بیرون ممالک بسنے والے ایک کروڑ35لاکھ ہندوستانی بھی اپنا حق ووٹ استعمال کرسکیں گے لیکن اس کیلئے انہیں انڈیا جانا اور ووٹ کے وقت وہیں موجود ہونا لازم ہے۔ وہ اپنی ایمبیسیوں کے ذریعے اپنا حق ووٹ استعمال نہیں کرسکیں گے۔ 19اپریل کو شروع ہونے والے انتخابات مختلف ریاستوں میں منعقد ہوتے ہوئے7مراحل میں یکم جون کو اپنا رائونڈ مکمل کریں گے اور4جون کو سرکاری نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ اس بار پورے انڈے میں12لاکھ الیکشن بوتھ بنائے جائیں گے اور کسی ووٹر کو دو کلو میٹر سے زائد اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے نہیں جانا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ایک جگہ24میل کے فاصلے پر فقط ایک عورت کے ووٹ کے لیے پولنگ اسٹیشن بنایا ہے یعنی سرکار ہر ووٹر تک پہنچے گی۔ مجھے یاد آیا کہ جاپان میں ریلوے نے فقط ایک گھر کے لیے چالیس میل کے فاصلے پر ریلوے لائن پہنچائی تھی۔ جہاں سے صرف ایک عورت سفر کرتی تھی۔ یہ کام انسانی زندگی کی قدر اور مقام کا اظہار کرتے ہیں۔ انڈیا کے حالیہ انتخابات میں لوک سبھا کی کل 543نشستیں ہیں اور کم از کم272سیٹیں لینے والی پارٹی یا اتحاد حکومت بنائے گا۔ اس بار بھی کا نگریس کی پوزیشن خاصی کمزور ہے اور وہ تیسرے یا چوتھے نمبر پر سمجھی جانے والی پارٹی ہے جس کی بنیادی وجہ تو ایک طرف کانگریس میں لیڈر شپ کا بحران ہے، دوسرا ان کی گزشتہ ادوار میں کارکردگی ہے۔ کانگریس نے اپنے دوراقتدار میں نہ تو معاشی ترقی کے بڑے کام کیے اور نہ ہی عام آدمی کو قابل محسوس ریلیف دیا۔ اس معاملے میں کانگریس کی مشابہت پاکستان میں پیپلز پارٹی کی طرح کی ہے۔ یعنی قوانین بناتے ہیں لیکن ٹھوس معاشی ترقی دکھانے کے بڑے کام نہیں کرتے۔ ابھی انڈیا میں گزشتہ دس سال میں بی جے پی نے جو اقدامات کئے ہیں، اس میں ان کا ووٹروں میں ہندو توا کا بیانیہ بھی ماند پڑا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے800ملین لوگوں میں مفت گندم تقسیم کی ہے جوکہ انڈیا کا غریب ترین آبادی کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ غریب ترین کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین اور ان کی فیملیز کو1250روپے ماہانہ کا وظیفہ مقرر کیا ہے، گوکہ کانگریس بھی ایسے دعوے کررہی ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو اس سے زیادہ وظیفہ دیں گے۔ کانگریس بی جے پی پر یہ الام بھی لگاتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے انڈیا میں مشکل حالات پیدا کررہے ہیں لیکن یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ نارتھ انڈیا کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی بی جے پی زیادہ ووٹ لے جارہی ہے۔ بی جے پی کو یا دوسرے لفظوں میں نریندر مودی کو کانگریس کی بجائے اس مرتبہ زیادہ خطرہ عام آدمی پارٹی سے محسوس ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے کیجریوال کو بدعنوانی کے الزام میں جیل میں بند کردیا ہے۔ جہاں اس کی مقبولیت کا گراف بلندی کی طرف ہے۔ بی جے پی کا اپنا دعویٰ ہے کہ وہ باآسانی دوتہائی اکثریت سے جیت جائیں گے۔ مودی کے امریکہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور امریکہ خطے میں چین کے مقابلے کے لیے انڈیا کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ جس س امریکی مفاد کا انڈیا کو بہت فائدہ حاصل ہورہا ہے اور انڈیا ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے۔