اسلام آباد (انصار عباسی)… فیض آباد دھرنا کمیشن نے حکومت سے کہا ہے کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک قانونی نظام میں لایا جائے تاکہ ان کے کام کو منظم کیا جا سکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔
ماضی میں آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون بنانے کی کچھ کوششیں اور متعدد مرتبہ مطالبات سامنے آتے رہے ہیں لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں۔
اب فیض آباد دھرنا کمیشن پھر وہی تجویز پیش کر رہا ہے۔ کمیشن نے یہ مشاہدہ پیش کیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں، اور ساتھ ہی اس ضمن میں ضروری قانون سازی اور شرائط کار (ایس او پیز ) بنانے کی سفارش کی ہے۔
پاکستان اُن چند جمہوری ممالک میں شامل ہے جہاں انٹیلی جنس ایجنسیاں بلا روک ٹوک کام کرتی ہیں کیونکہ ان پر لگام ڈالنے یا ان کے اقدامات پر سوال پوچھنے یا کارکردگی پر سوال اٹھانے والا کوئی قانون موجود نہیں۔
ملک کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیاں (آئی ایس آئی اور آئی بی) پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ا یگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے قائم کی گئی تھیں لیکن ان کے کام کاج کی نگرانی کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ فی الوقت یہ ایجنسیاں ایسے ایس او پیز کے تحت کام کرتی ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
ماضی میں مختلف اوقات پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قانون سازی کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کا معاملہ اٹھایا جاچکا ہے اور اس معاملے پر بحث بھی ہوئی ہے لیکن کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے ڈی جی انٹیلی جنس بیورو ڈاکٹر شعیب سڈل نے قانون سازی کے حوالے سے اقدامات کیے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے حکومت کو پیش کیا تھا۔
یہ مسودہ انہوں نے مختلف ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے کی گئی قانون سازی کا جائزہ لینے کے بعد تیار کیا تھا۔ شعیب سڈل نے رضاکارانہ طور پر اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ ایک قانون کے ذریعے انٹیلی جنس بیورو کی پارلیمانی نگرانی ہونا چاہئے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں چند جمہوری ممالک نے اپنی ایجنسیوں کو بغیر کسی قانونی فریم ورک کے کام کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ حتیٰ کہ جن ممالک میں پہلے آمریت تھی وہاں بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے اصلاحات کی گئی ہیں۔
عمر چیمہ کی دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، بہتر انداز سے کام کرنے والی جمہوریتیں پارلیمانی نگرانی کے بغیر کام نہیں کرتیں۔ ان ممالک میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، ناروے، لکسمبرگ، آسٹریلیا، بیلجیم، کینیڈا، نیدرلینڈ اور دیگر شامل ہیں۔
نیدرلینڈز نے تو اپنی فوجی انٹیلی جنس کو پارلیمانی نگرانی کے تابع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں بیشتر قانون سازی گزشتہ دو دہائیوں میں کی گئی، اور برطانیہ ایسے ممالک میں نمایاں ہے جنہوں نے 1989ء میں قانون سازی کا آغاز کیا تھا۔
برطانیہ نے 1989ء میں ایم آئی فائیو کیلئے قانون کو باضابطہ شکل دے کر اسے سیکورٹی سروس ایکٹ کا نام دیا۔ اس کے بعد 1994ء میں ایم آئی سکس کیلئے بھی قانون بناکر اسے انٹیلی جنس سروس ایکٹ کا نام دیا۔
قانونی حیثیت کا تقاضا ہے کہ سیکورٹی فورسز صرف قانون میں وضع کردہ اختیارات کے تحت کام کریں۔ دیگر ملکوں میں رائج طریقوں کے برعکس، برطانیہ نے غیر ملکی انٹیلی جنس آپریشنز کیلئے ایم آئی سکس کیلئے قانون سازی کی۔
انٹیلی جنس ضروریات کیلئے ریاستیں مختلف ادارہ جاتی انتظام کرتی ہیں۔ ترکی، اسپین، نیدرلینڈز اور بوسنیا ہرزیگووینا جیسے ممالک میں ملکی اور بیرونی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کا کام ایک ہی ایجنسی سے لیا جاتا ہے۔
دیگر ممالک مثلاً برطانیہ، پولینڈ، ہنگری اور جرمنی وغیرہ میں ملکی اور بیرونی انٹیلی جنس ضروریات کیلئے علیحدہ علیحدہ ایجنسیاں ہیں۔ کینیڈا واحد ملک ہے جہاں کوئی غیر ملکی خفیہ ایجنسی نہیں۔