• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک انڈیا انتخابات کے جمہوری عمل کا ووٹنگ کے سات مراحل میں سے دوسرا مرحلہ پورا کر چکا ہے جس میں سب کی نگاہیں کیرالا اور کرناٹک ریاستوں کے انتخابات پر جمی ہیں جہاں لوک سبھا کی 48 نشتوں پر کمیونسٹ زور لگا رہے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں پر تاریخی طور پر کمیونسٹوں کا کنٹرول رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی ریاستوں میں بائیں بازو کی پارٹیاں محض سروائیول کی جنگ لڑ رہی ہیں کیونکہ انڈیا میں لیفٹ کی سیاست کے بہت سے چہرے ہیں البتہ کیرالا اور کرناٹک کے علاوہ تری پورہ، مغربی بنگال بھی مارکسٹ حکومتیں بناتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد نظریاتی اختلافات میں سکوت آگئی اور ٹوٹ کے ایک اور پارٹی نکل آئی جسے کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ) کہتے ہیں۔ کئی ریاستوں میں ان کا سیاسی طور پر لیفٹ ڈیموکریٹک پارٹی (مارکسٹ) کے ساتھ اتحاد رہتا ہے اور یہ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے ساتھ مل کے کانگریس کے بھی اتحادی بن جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہ اتحاد مودی کے خلاف متحد ہوکے الیکشن لڑ رہا ہے یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انڈین الیکشن میں بہت سے فلمی اداکار اور آرٹسٹوں کے علاوہ کئی شعبوں کے نامی گرامی لوگ نظر آرہے ہیں۔ لیکن اس بات کے لئے ایک تحقیق کی ضرورت ہے کہ زیادہ تر بی جے پی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں مثلاً ہیما مالنی جی جے پی سے انتخابات کی امیدوار ہیں۔ اسی طرح منوج تواری بھی بی جے پی کے امیدوار ہیں، شتروگن سنہا کانگریس کے امیدوار ہیں۔ نامور کرکٹر یوسف پٹھان بھی مغربی بنگال سے کانگریس کے امیدوار ہیں، اسی طرح بالی ووڈ کی ایکٹریس کنگنا رانوٹ بھی بی جے پی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ انڈیا کی 80 فیصد آبادی ہندو ہے اور بی جے پی اپنے اندر کے بیج میں ہندو پارٹی ہے ۔ اس دفعہ نریندر مودی ہندو کارڈ کا دل کھول کے استعمال کر رہا ہے ۔ کانگریس کو مسلمانوں کی ایجنٹ پارٹی قرار دیتا ہے اور مسلمانوں کو دہلی میں اپنی ایک بڑے جلسے میں تقریر میں گھس بیٹھیے قرار دیا۔ جس پر کانگریس نے مودی کے خلاف الیکشن کمیشن میں رپورٹ درج کرائی ہے گو کہ ایسے ماحول میں ایسی رپورٹوں کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلتا ۔ انڈیا میں الیکشن ضوابط میں ایسی تقاریر پر پابندی ہے جن سے مذہبی کشیدگی میں اضافہ ہو۔ لیکن مودی کی گزشتہ دو دہائیوں کی سیاست اسی اینٹی مسلم جذبات کو بڑھانے اور تشدد پر اتر آنے کی سیاست ہے جبکہ کانگریس نچلی ذاتوں، خواتین اور خصوصی طور پر مسلم اقلیت کو ملک کی ترقی میں برابر کے حصے دار بنانے کی دعویدار ہے۔ دوسری طرف مودی اپنی تقریروں میں ہندو نیشنل ازم کا کارڈ کھیلتا ہے۔ کہتا رہتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے زیادہ پیدا ہوتے ہیں ا س لئے یہ ہندو آبادی سے آگے نکل جائیں گے۔ جبکہ اس وقت ہندوستان میں 15 فیصد مسلمان ہیں، 5 فیصد میں دیگر اقلیتیں سکھ، عیسائی، جین اور ذات پات کے حوالے سے دلت ہیں اور مودی کے اکھنڈ بھارت کی بیانیے کی وجہ سے بالآخر تمام اونچی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ سب بدیسی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق چھ بڑی سیاسی پارٹیاں الیکشن میں موجود ہیں جنہیں قومی پارٹیاں کہا جاتا ہے ، اسکے علاوہ 57 پارٹیاں صوبائی یا ریاستی سطح کی ہیں جبکہ 2764 ایسی چھوٹی پارٹیاں ہیں جنہیں ملکی سطح پر کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ اس وقت درجنوں ارب پتی انڈین الیکشن میں براہ راست حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ اس وقت ہندوستان میں کل 200 سے زائد ارب پتی ہیں جو کہ گزشتہ برس سے 20 فیصد زیادہ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے 25 ارب پتی لوک سبھا کے ممبر بننے کے لئے پرتول رہے ہیں جن میں سے 14 براہ راست بی جے پی کے ٹکٹ یافتہ ہیں۔ ویسے تو ایک ارب چالیس کروڑ کے ملک میں 90 کروڑ ووٹرز ہیں اور ہندوستان کی 84 فیصد آبادی ساڑھے چھ ڈالر یومیہ سے کم آمدنی پر گزارا کرتی ہے ۔ گوکہ انڈیا میں بتدریج غریب کلاس میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ تاہم امیر کلاس بہت تیزی سے امیر تر ہو گئی ہے اور دولت تیزی سے چند ہاتھوں میں منتقل ہو رہی ہے اب حالیہ الیکشن انڈیا کی اوپر والی کلاس کو کتنا فائدہ پہنچائیں گے اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی پشت پناہی سے اپر کلاس انڈیا کے چھوٹے کسانوں کی زمینیں ہتھیانے کے بھی بڑے منصوبے بنا رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ آئندہ برسوں میں ہندوستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندہ رہنے والوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔
یورپ سے سے مزید