کراچی(ثاقب صغیر / اسٹاف رپورٹر )کراچی میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق شہریوں کی تعداد سے پولیس خود ہی لاعلم نکلی۔جمعہ کو سینٹرل پولیس آفس میں ہونے والے اجلاس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے سال 2024کے دوران جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف پولیس کاروائیوں،ملزمان کی گرفتاریوں،کیسز کی تفتیش میں ہونیوالی پیش رفت اور منطقی انجام تک پہنچنے والے کیسز پر مشتمل تفصیلی رپورٹ کا جائزہ لیا۔اے آئی جی آپریشنز سندھ کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق رواں سال ڈکیتی کے دوران قتل کے 46 مقدمات درج ہوئے جن میں مجموعی طور پر 48 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں رواں برس ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق افراد کی تعداد 64 ہو چکی ہے۔سندھ پولیس کے ایک سابق پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ جب پولیس کے پاس ان واقعات کا ڈیٹا ہی پورا نہیں ہو گا تو کیسے ان کیسز میں ملوث ملزمان کو پکڑا جائے گا؟۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پولیس نے ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی کئی شہریوں کے واقعات کو ڈکیتی میں قتل کے بجائے ذاتی دشمنی یا کسی اور وجہ سے قتل قرار دیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ کئی واقعات میں پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ فلاں واقعہ ڈکیتی کا نہیں ہے لیکن بعد ازاں تفتیش میں معلوم ہوا کہ واقعہ ڈکیتی کا ہی تھا۔آئی جی سندھ کو اجلاس میں بتایا گیا کہ قتل ہونے والے 46 کیسز میں سے جس میں 27 کیسز کو پولیس نے اپنی محنت اور پیشہ وارانہ صلاحیتیوں سے حل کرکے مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ ان واقعات میں 13ملزمان ہلاک اور 33 ملزمان گرفتار ہوئے جبکہ قتل کے دیگر 12 مختلف مقدمات میں سے بھی پولیس نے 8 مقدمات کو اپنی محنت سے حل کرلیا ہے۔کراچی پولیس کے ایک سابق افسر کا کہنا ہے کہ واقعات کو چھپانے سے اسٹریٹ کرائم کا مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ جتنے واقعات رپورٹ ہوں گے اس کا پولیس کو فائدہ ہو گا کیونکہ اس کی بنیاد پر پولیس یہ جان سکے گی کہ کن علاقوں میں یہ واقعات زیادہ ہو رہے ہیں اور ہاٹ اسپاٹ کون سے ہیں۔