ہماری زمین پر پانی کے اُوپر تیرنے والا ایک ایسا پتھر بھی دریافت ہوا ہے جسے نباتاتی افزائش، باغبانی کے فروغ اور طبّی نقطہ نظر سے دُنیا بھر میں فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ پتھر ’’پیومس‘‘ (Pumice) کہلاتا ہے۔ اس کی تخلیق ہلکی کثافت والی اسفنجی گرم سیّال سے اس وقت عمل میں آئی جب قبل اَز تاریخ زیر زمین موجود پگھلا ہوا گرم رقیق یعنی ’’میگما‘‘ زمین کے اُوپر زبردست دھماکے سے پُھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرّۂ اَرض کے وسیع و عریض علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہی وہ وقت تھا جب سیّارہ زمیں پر آتش فشانی کے عمل کا آغاز ہو ا، جس کے توسط سے اندرون زمین گہرائی میں موجود غیرمرئی (جو دِکھائی نہ دے) گرم چٹانی سیّال سطح زمین پر آ کر دکھائی دینے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ گرم سیّال سرد اور منجمد ہوتا گیا۔ اس طرح آتش فشانی کے عمل نے آگ اور خاک سے بنی ہوئی آتش فشاں پہاڑیوں کو جنم دیا، جو گرم سیّال سے بنی ہوئی کئی اقسام کی اُگن چٹانوں (آگ سے جنم لینے والی چٹان) کا محور اور مرکز بن گیا۔
ان میں سے ایک خاص قسم کی چٹان ایسی بھی دریافت ہوئی جو مکمل طور پر باریک باریک سُوراخ یا مسام دار (porous) پائی گئی ہے جو میگما میں مقید گیس کی موجودگی اور پھر فرار کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ پتھر بہت ہی ہلکی نوعیت کی پائی گئی ہے۔ یہ اس قدر ہلکی ہوتی ہے کہ اس کے کئی کلو وزنی پتھر کو با آسانی ہاتھ سے اُوپر اُٹھایا جا سکتا ہے۔
پانی سے ہلکی کثافت کی حامل ہونے کی وجہ سے آتش فشاں کے قریب موجود سمندر میں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں جسے سائنسی حلقوں نے فوری طور پر لاوائی چٹان ’’پیومس‘‘ کے طور پر متعارف کرایا۔ اس حقیقت کا انکشاف پہلی بار اس وقت ہوا جب فیلڈ سروے کے دوران ’’اٹلی‘‘ کی سرزمین ’’نیپلز‘‘ (Naples) کے قریب 1000 درجہ کی درجۂ حرارت والے آتش فشاں ویسوئیس (Vesuvius) کے اطراف تحقیق و ترویج کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی اس کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے۔
یہ اہم اس وجہ سے ہے کہ یہاں سے اہل سائنس کو مقامی زبان سے آتشی چٹان مثلاً پیومس (جسے برصغیر پاک و ہند میں جھانوا کہتے ہیں) کے حوالے سے ایک قابل قدر اصطلاح میسر آئی۔ ’’اٹلی‘‘ زبان میں دھونے کے لئے لفظ لاور (Lavare) کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے جب طوفان برق و باراں کے دوران گلیوں اور اطرافی علاقے پانی سے بھر جایا کرتے تھے تو مقامی آبادی اسے ’’لاوا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ’’ویسوئیس‘‘ سے ملحقہ آتش فشاں پہاڑی وقتاً فوقتاً پگھلے ہوئے گاڑھے گرم چٹانی سیّال کو ایک خوفناک قسم کے گارے بہائو اور سیلاب کی صورت میں اُگلنے لگے، جس نے پورے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اسی توسط سے آج دُنیا بھر میں اس پگھلے ہوئے گرم سیّال کو جوکسی بھی سیّارے سے آتش فشاں پہاڑی کے دھانے سے خارج ہو کر اطراف میں پھیل کر منجمد ہو جائے ’’لاوا‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جس کے ذریعے کئی باریک دانے دار بیرونی آتشی چٹان کی تخلیق ہوتی ہے، جس میں امتیازی خصوصیت کی حامل چٹان ’’پیومس‘‘ سرفہرست ہے، کیونکہ اس کی تخلیق عام قسم کے ’’لاوا‘‘ سے نہیں ہوتی۔
کمپوزیشن کی بنیاد پر یہ دیگرلاوا سے مختلف ہوتی ہے۔ اس قسم کے لاوا میں بے تحاشا بُلبلے شامل ہوتے ہیں گویا اس میں حل پذیر گیسیں موجود ہوتی ہیں، پھر یہ کہ سیلیسک (Silicic) قسم کا لاوا ہوتا ہے، جس میں سیلیکا کی وافر مقدار (65 فی صد سے زیادہ) میں موجود ہوتا ہے اور کیمیائی مرکبات کے حوالے سے غیر آہن، میگنیشیم بردار مثلاً کوارٹز، فلسپار، آگائیٹ اور زرقون شامل ہوتے ہیں۔ اس میں غذائیت کی بھی نہایت قلیل مقدار (0.2 فی صد) کی موجودگی کا بھی انکشاف کیا ہے، جس میں نائٹروجن، حل پذیر پوٹاش، میگنیشیم اور سلفر بھی موجود ہوتی ہیں لیکن سب سے اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس میں موجود بہت ساری گیسیں حل پذیر حالت میں شامل ہوتی ہیں۔ سب سے اہم کردار آبی بخارات کا ہوتا ہے جو عمل تکثیف (Condense) سے گزر کر بھاپ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
دُوسری گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور سلفیورک ایسڈ بھی بھاپ کے ساتھ خارج ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے لاوا کف آلود دکھائی دیتا ہے۔ جب یہ مخصوص درجہ ٔحرارت (تقریباً 700 ڈگری سی) پر سرد اور منجمد ہو جاتے ہیں جو جھاگ اور بُلبلے غائب ہو جاتے ہیں اور بے شمار خلا چھوڑ جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے تشکیل پانے والی یہ چٹان بالکل ہلکی ہو جاتی ہے۔ جسے ’’پیومس‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ہلکے، گہرے رنگ سے درمیانہ گرے رنگ میں پایا جاتا ہے اور یہ یونانی زبان کے لفظ پیومکس (Pumex) سے ماخوذ ہے، جس کے معانی جھاگ یا کف آلود کے ہوتا ہے۔
’’پیومس‘‘ کی تخلیق کے میکنیزم کو دُنیا بھر کے ماہرین ارضیات نے مشاہدے، تجزیے اور سروے کے بعد ’’اٹلی‘‘ کی سرزمین ’’نیپلز‘‘ کے اطراف ہونے والی آتشی کارکردگی کے حوالے سے ایک مستند دستاویزی رپورٹ پیش کی، جس میں یہ اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’’لاوا‘‘ اور اس سے تشکیل پانے والی چٹان کا موجب بنیادی طور پر’’میگما‘‘ ہوتا ہے۔ جب یہ زیر زمین گہرائی میں قید ہوتا ہے تو چہار طرف دبائو (Confining Pressure) کی زَد میں ہوتا ہے، جس میں حل شُدہ گیسیں دباؤ کے تحت قید ہو جاتی ہیں۔ یہ تمام گیسیں اُس وقت تک ’’میگما‘‘ میں قید رہتی ہیں جب تک اردگرد کی چٹانوں کا تمام اطراف سے دبائو گیسوں کے مجموعی دبائو سے زیادہ ہوتا ہے۔ جب یہ دبائو کم ہونے لگتا ہے تو گیسوں کے پھیلاؤ کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔
اس صورت حال میں گیس کے چھوٹے چھوٹے بُلبلے اُبلتے ہوئے ’’لاوا‘‘ میں نظر آتے ہیں۔ کھلی فضا میں فرار ہونے کے بعد چٹان کی سطح پر بے شمار باریک باریک خلا چھوڑ جاتے ہیں جنہیں وسیکل (Vesicle) کہتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب دو میں سے کوئی ایک پہلو اَثر انداز ہو۔ یعنی پہلے عمل میں جب اطراف کا دباؤ کم ہوتا ہے تو اُس کے نتیجے میں میگما کا پھیلائو شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے پگھلا ہوا چٹانی سیّال زیادہ دباؤ والے مقام سے کم دبائو والے مقام تک رسائی حاصل کرتے ہوئے میگمائی خانے کا دبائو اسے نالیوں (Conduits) کے ذریعہ اخراجی نالیوں (Vents) میں دھکیل دیتا ہے یا پھر میگما کے درجۂ حرارت کے کم ہونے سے یا پھر اُس کے سرد ہونے کی وجہ سے تبخیری عمل کا بخاراتی دباؤ (Vapour Pressure) بڑھ جائے تو نتیجے میں میگما میں موجود گیس کے اجزاء افزودہ ہو جاتے ہیں۔
دونوں صورتوں میں میگما چھوٹے چھوٹے بُلبلوں سے بھرپور ہو جاتا ہے۔ ان بُلبلوں کی کثافت اِردگرد کے سیّال سے بہت کم ہونے کی وجہ سے اس کے باہر نکلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جس کا عملی مظاہرہ سوڈا کی بوتل کھولنے کے دوران دیکھا جا سکتا ہے۔ کولڈ ڈرنک کی بوتل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس محلول کی صورت میں دباؤ کے زیراَثر مقید ہوتی ہے لیکن جب بوتل کے ڈھکن کو فوری طور پر کھولتے ہیں تو گیس دبائو کی قید سےآزاد ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے حل شُدہ گیس باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔
جب حل شُدہ گیس کو دباؤ سے نجات حاصل کرنے کا کوئی پہلو میسر آتا ہے تو یہ پوری قوت سے اخراجی گزرگاہ کی طرف رُخ کر تی ہے۔ اگر کھلی ہوئی بوتل کو فوری طور پر ٹھنڈا کر دیں تو اس میں باریک باریک برف کے ٹکڑے بُلبلے کے سُوراخ کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی عمل ’’پیومس‘‘ کی تخلیق کے دوران بھی ہوتا ہے۔ اس عمل کا انحصار سیّال میں موجود گیسی اجزاء اور لزوجیت (Viscosity) کے توازن پر ہوتا ہے۔ یعنی اگر میگما میں گیس کے بُلبلے زیادہ موجود ہوں گے تو آتشی عمل کی زیادہ شدّت سے لاوا پُھوٹ پڑتا ہے۔ اگر گیسی بُلبلوں کی کم مقدار موجود رہتی ہے تو نسبتاً کم شدّت سے لاوا خارج ہوگا۔ دونوں صورتیں درحقیقت ’’پیومس‘‘ کی تخلیق پر اَثرانداز ہوتی ہیں۔
’’لاوا‘‘ کے اخراج سے ’’پیومس‘‘ کی تخلیق تک کے سفر کے بارے میں عام تصوّر یہ ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک اور تباہ کن عمل ہوتا ہے جو بڑی حد تک دُرست بھی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے خاطرخواہ فوائد بھی میسّر آتے ہیں۔ مثلاً ’’پیومس‘‘ زراعت (نباتاتی اشیاء) کے حوالے سے ایک مسام دار آتشی پتھر ہے جو نکاسی آب کے نظام کے ساتھ پورے تُرابی ساخت (Soil Structure) کے لئے سودمند ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نہ تو سُکڑتا ہے اور نہ ہی کیمیائی فرسودگی کی زَد میں آتا ہے اوریہ گلتا سڑتا بھی نہیں ہے، کیوںکہ اس میں نمی کی مناسب مقدار موجود ہوتی ہے، تاکہ جڑوں کی افزائش کے لئے جڑوں کو مسلسل غذائیت ملتی رہے۔
یاد رہے کہ تمام غذائیت ’’پیومس‘‘ کے باریک باریک سُوراخوں میں ذخیرہ ہوتی ہے۔ جہاں سے درختوں اور پودوں تک مسلسل رسائی ہوتی رہتی ہے ،جس سے نباتاتی پیداواریت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بہت سارے صنعتی ادارے اسے ریگ مال کے طور پر تجارتی بنیادوں پر استعمال کرتے ہیں۔ دندان ساز اس کے پائوڈر کو دانتوں کی پالش کے لئے ترجیح دیتے ہیں۔ عام طور پر اسے جسم کی مُردہ کھال (خصوصی طور پر ایڑھی کی مُردہ کھال) کو رگڑ کر صاف کرنے کے لئے بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ ایشین ممالک میں اس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں جب کہ اس کی خاصی مقدار روس کے مشرقی بازو ’’کماچٹکا‘‘ میں موجود ہے۔