اگر اُن سے دریافت کیا جائے کہ ایک ڈالر کتنے پاکستانی روپے کے برابر ہوچُکا ہے تو وہ شاید ہی اِس بات کا حتمی جواب دے سکیں۔ تاہم، کسی شخص کی قدر و قیمت کا تعیّن کرنے میں اُن کی رائے اس قدر جچی تُلی ہوتی ہے کہ گویا اصابتِ رائے اُن پر ختم ہے۔ جی ہاں، یہ ہیں، ڈاکٹر ہلال نقوی۔ تن کے اکہرے، مَن کے اُجلے اور فن میں یکتا اور اکیلے۔ یہ فیصلہ کرنا ہمارے لیے بے حد دُشوار ہے کہ وہ تخلیق سے زیادہ قریب ہیں، یا تحقیق سے۔
تاہم، وہ جس میدان میں بھی فعال ہوں، نقشِ قدم ایسے اُبھار دیتے ہیں کہ دُور سے دکھائی دے جائیں، مگر اُن پر قدم رکھنے سے اچھے اچھوں کے دَم اُکھڑ جائیں۔ انسان کو پرکھنے کے کئی پہلو ہیں۔ اچھا خاندان، اچھی تعلیم، اچھی صحبت، اچھا اخلاق و کردار۔ اِس ذیل میں کچھ اور معیارات کا بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی پر گفتگو کی ابتدا اُن کے خاندان سے کرتے ہیں۔
امروہے کے ایک نام وَر اور اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ۔ وہی امروہا کہ جہاں چراغ سے چراغ جلنے کا محاورہ، محاورہ نہیں رہتا، حقیقت بن جاتا ہے۔ وہی امروہا کہ جہاں کے مصحفی، نسیم امروہوی، رئیس امروہوی، سیّد محمّد تقی، جون ایلیا اور صادقین نے ایک دھمال مچا رکھی ہے۔ وہی امروہا کہ جس کا علم و دانش سے شاید نہ ٹُوٹنے والا رشتہ ہے۔ وہی امروہا کہ جس کے اسلاف اور روایات کمالات ہیں۔ امروہااورامروہے والے اپنی شناخت ہر حال میں برقرار رکھتے ہیں۔ اس عنوان سے ایک دل چسپ واقعہ سُنتے چلیں۔
کہا جاتا ہے کہ بھٹو دورِ حکومت میں سندھ کے وزیرِاعلیٰ، غلام مصطفیٰ جتوئی کو کسی تقریب میں مدعو کیا گیا اورنسیم امروہوی اور رئیس امروہوی منتظمین میں شامل تھے۔ جتوئی صاحب نے دورانِ تقریر کہا کہ پاکستان میں رہتےہوئے اپنے نام کے ساتھ امروہوی کا لاحقہ کچھ جچتا نہیں، جس پررئیس نے فی البدیہہ کہا تھا ؎ شکلِ ظاہر کچھ بھی ہوجائے وہی رہتے ہیں ہم… ہوں کہیں پر بھی، مگر امروہوی رہتے ہیں ہم۔
واپس ڈاکٹر ہلال نقوی کی جانب آتے ہیں۔ تعلیم کی اعلیٰ ترین سند کے حامل ڈاکٹر ہلال نے صحبتیں ایسی اختیار کی ہیں کہ ہم جیسے تہی داماں ویسی صحبتوں کی محض تمنّا ہی کرسکیں۔ محض تین نام پیش کیے جاتے ہیں کہ جن کی صحبت و سنگت میں گزارے گئے مہ و سال سے ڈاکٹر ہلال مہِ کامل بن کے سامنے آئے۔ جوش ملیح آبادی، نسیم امروہوی اور پروفیسر مجتبیٰ حسین۔ متذکرہ شخصیات سے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
مختصر یہ کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ کار میں بے مثل و بے نظیر ہے۔ ڈاکٹر ہلال کے اخلاق و کردار کا یہ عالم کہ ملنے جُلنے والے اُن کے انکسار سے انکار کا شاید تصوّر ہی نہ رکھتے ہوں۔ نوواردانِ ادب کا بھی وہ احترام کہ خوردوں کو دوستوں کا درجہ دینے پر آمادہ۔ چہرہ سنجیدگی اورتبسّم کا امتزاج۔ بیداری نیند پرغالب۔ زندگی کے مختلف ادَوار میں سخت نامساعد حالات کے باوجود مزاج کا دھیما پن اور فطری شگفتگی شخصیت کا جزوِ لاینفک۔ اس دنیا کے باسی ہوتے ہوئے بھی مُروّجہ دنیاوی طور طریقوں سے کوسوں دُور۔
آج کی دنیا جو بِیف، چکن اور مٹن کے لیے ہمہ وقت پریشان، وہاں ڈاکٹر ہلال محض حرف، لفظ، سخن اور متن پر قربان۔ آج کی دنیا کہ جہاں لوگوں کے وقت کا زیادہ تر حصّہ نذرِ فیس بُک تو وہاں ڈاکٹر ہلال کے لیےچہرہِ کُتب وجہِ نشاط و سُکھ۔ یہ تو شخصیت کا آپ نے ایک رُوپ دیکھا۔
اب ایک اور رُخ دیکھیں۔ روزگار کے لیے جس شعبے کا انتخاب کیا، وہ تھا تعلیم و تدریس۔ نسلِ نَو تک محض افکار و خیالات ہی منتقل نہیں کیے، بلکہ اپنی تصانیف کے ذریعے فکری اورعلمی وَرثے کو اگلی نسل تک محفوظ طریقے سے پہنچایا بھی۔ اُن کے سفرِ زیست کو ایک فقرے میں سمیٹا اور سمویا جائے تو وہ یوں ہوگا۔ زندگی نامہ، دوات و خامہ۔
آج کا دَور اسپیشلائزیشن یعنی مخصوص مہارت کا ہے۔ ڈاکٹر ہلال کا اختصاصی شعبہ جوش ملیح آبادی ہیں اور اِس عنوان پروہ بلاتکلف چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا قرار دیئےجاسکتے ہیں۔ جوش کے نسبی وابستگان اس میدان میں جوش سے قلبی تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہلال کی ہم راہی میں شاید دو چار قدم بھی نہ چل سکتے ہوں۔ جوش پر اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹر ہلال نے انیس و د بیر، نسیم امروہوی، نجم آفندی، سیدآلِ رضا، مجتبیٰ حسین وغیرہ پر’’شارٹ کورسز‘‘ کے تحت ایسا کام کیا ہے کہ مذکورہ شخصیات پر کام کرنے والے ماہرینِ ادبیات نے اُن کے کام کودل سے سراہا۔
ڈاکٹر ہلال نقوی نے رثائیہ ادب سے وابستہ بہت سے اصحاب و افراد پر ’’ڈپلوما کورسز‘‘ کی صُورت میں ایسے تحقیقی مضامین اور مجلّے ترتیب دیئے ہیں، جو بلاشبہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔ سرِدست جوش ملیح آبادی پراُن کے تمام ماسبق بےمثل کاموں سے پہلو تہی کرتے ہوئےاُن کےتنِ تنہا انجام دیئے جانے والے ناقابلِ یقین ادبی معرکے ’’کلیاتِ جوش‘‘ پر کچھ گفتگو مقصود ہے، تاہم ’’کُلّیات جوش‘‘ پر گفتگو سے پہلے چند معروضات۔
مرزا یاس یگانہ چنگیزی دَورِ متاخرین میں تخلیق کی اجتہادی قوت سے مالامال گنتی کے چند شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اُن کی طویل ہنگامہ خیزمناقشوں سے پُر ادبی زندگی غور و فکر کے بہت سے دریچے وا کرتی ہے۔ کسی بڑے شاعر کے بکھرے کلام کو کلیات کی شکل دینا کتنے جان جوکھوں کا کام ہے، یہ جاننے اور سمجھنے کے لیے مشفق خواجہ کے زبردست تحقیقی کام ’’کلیاتِ یگانہ‘‘ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
اُنہوں نے اس کام کے لیے کتنے جوکھم اُٹھائے، اسے ’’دیباچہ مرتب‘‘ کی طویل گفتگو میں پوری طرح واضح کردیا ہے۔ اس کا ایک اقتباس بات کی تفہیم کے لیےضروری ہے۔ ’’جب بعض رسائل میں یگانہ کا ایسا کلام نظر آیا، جو اُن کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہے، تو مَیں نے طے کیا کہ یگانہ کی زندگی میں شامل ہونے والے تمام ادبی رسائل کو دیکھا جائے۔
بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے پانچویں دہائی تک کےجو ادبی رسائل دست یاب ہوسکے، مَیں نے دیکھے۔ یہ رسائل ڈیڑھ سو سے کم کیا ہوں گے اور اُن کے جو شمارے میری نظرسےگزرے، وہ تقریباً چار ہزار تھے۔‘‘ یاس یگانہ چنگیزی ہی کی طرح ایک اور شخصیت ہے، جس کا تخلیقی کام ہمہ جہت اور برسوں کی ریاضت پرمبنی ہے۔ یہ ہیں نیاز فتح پوری۔ ہندوستانی ادب میں تعقّل پرستی اور روایت پرستی کی ایک باقاعدہ روایت کو جنم دینے والے نیاز نے ’’نگار‘‘ کے ذریعے تقسیم سے برسوں پہلے ہندوستانی ادب کے اُفق پر ہلچل مچادی تھی۔
اُن کے پرچے نے 1922ء سے 1962ء تک ہندوستان اوراس کے بعد 1966ء تک پاکستان میں اَن گِنت موضوعات کو سمیٹا۔ ان سب کا جائزہ لینے کے لیے’’نیاز فتح پوری کا نگار، وضاحتی اشاریہ‘‘ کے عنوان سے ایک رسالہ مرتب کیا گیا۔ اس کا ’’حرفے چند‘‘ بڑے کام میں درپیش ہونے والی مشکلات کی کسی حد تک عکّاسی کرتا نظر آتا ہے۔ سو، ایک اقتباس پیش کرنا بالکل مناسب ہوگا۔ ’’خدا بخش فیلو شپ کے لیے جو کام ہوئے، اُن میں ایک نگار کا وضاحتی اشاریہ بھی تھا، یہ کام ڈاکٹر عطا خورشید کے سپرد کیا گیا تھا۔ ہمیں خوشی ہے کہ وہ اس کام کی تکمیل کرسکے۔
کام بڑا اور خاصا پھیلا ہوا تھا، جس کی موضوعاتی تقسیم اور ذیلی موضوعات پرانہیں نظرِثانی کرنا تھی، جس کا موقع ہنوز نہیں مل سکا ہے۔ تاہم ہم نے خیال کیا کہ جس حد تک یہ کام ہوسکا ہے، اُردو دنیا کو اس سے کچھ عرصے کےلیے ہی سہی، مزید محروم رکھنا مناسب نہ ہو گا۔ کمیاں اگلے ایڈیشن میں پوری ہوتی رہیں گی۔ اس لیے فی الحال وہ اپنی اِسی شکل میں پیش خدمت ہے۔‘‘ درج کردہ دونوں اقتباسات کا مقصد اِس کے سوا اورکچھ نہیں کہ یہ احساس کیاجاسکے کہ طویل زمانے پر محیط اور بکھرے ہوئےادبی سرمائے کی جمع آوری کے بعد انُہیں کُلیّات کی شکل میں پیش کرنا جُوئے شِیرلانے کے مترادف ہے۔
اب آتے ہیں، ڈاکٹر ہلال نقوی کی مرتّب کردہ ’’کُلیاتِ جوش‘‘ کی طرف۔ تاہم، ایک اہم بات آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ کسی تدوین کار کی جانب سے اس عنوان سے کی جانےوالی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ بھارت سے ڈاکٹرعصمت ملیح آبادی نےلگ بھگ 1552 صفحات پر محیط ’’کلیاتِ جوش ملیح آبادی‘‘ دہلی سے2007 ء میں شائع کی۔ ذرا ایک نظر سرعت کے ساتھ اُس کے مندرجات پر بھی ڈال لی جائے۔
سرِورق اور اس کے اندرونی صفحے کے بعد صفحہ3 پر’’فہرست دواوینِ جوش‘‘ کے عنوان سے جوش کے مجموعہ ہائے کلام کے نام درج کیے گئے ہیں، تاہم اُن میں سے کسی پراشاعت کا سال درج نہیں ہے۔ ’’جوش صاحب‘‘ کے عنوان سے ص 4 تا 8 عصمت ملیح آبادی کا جوش کی زندگی پر مختصر جائزہ ہے۔ انہوں نے جوش کے ترکِ وطن کرنے اور پاکستان سکونت اختیار کرنے کی تاریخ یکم جنوری 1957 ء قرار دی ہے، جو دُرست نہیں ہے۔ ص 9 پر’’کُلیاتِ جوش ملیح آبادی‘‘کے پہلے مجموعے ’’روحِ ادب‘‘ سے ابتدا ہے، مگر اس میں بھی سالِ اشاعت درج نہیں۔ طوالت کے خوف سے متعدّد فروگزاشتوں سے صرفِ نظرکیا جاتا ہے۔
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی نے کلیاتِ جوش کی جِلد اوّل پیش کی ہے، جس کی اشاعت کو کئی برس گزرچُکےہیں۔ مضمون نگار مذکورہ کلیات کے مطالعے سے اب تک محروم ہے۔ یگانہ اور نیاز کے طویل ادبی سفر کی مانند جوش نے بھی ادب کی وادی میں کئی عشرے گزار دیئے۔ اگر اُن کے اوّلین مجموعے ’’رُوحِ ادب‘‘ کی اشاعت 1920ء سے اُن کے انتقال1982ء تک کا عرصہ شمارکیا جائے، جس میں وہ مستقل کچھ نہ کچھ تخلیق کرتے رہے، تو اُن کے ادبی سفرکی عُمر ساٹھ برس سے زیادہ قرار پاتی ہے۔ 1955 ء میں جوش پاکستان چلے آئے۔
گویا اُن کی ادبی زندگی دو حصّوں یا مُلکوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصّہ ہندوستان (35 برس) اور دوسرا حصّہ پاکستان(27برس)۔ جوش کے ترکِ وطن کرنے کا مطلب یہ تھا کہ تخلیقی زندگی کے اوّلین طویل پینتیس برس کے سرمائے کو کسی ممکنہ خطرے میں ڈال کر ایک نئی مملکت میں اَزسرِنَو تخلیقی قوتوں کو بےدار کرنا۔
یہ ایک حوصلہ شکن صُورت تھی، وہ بھی اُس صُورت میں کہ ہندوستان میں اُن کے تخلیقی کام اوراقِ پریشاں کی صُورت منتشر تھےاورجن کی ترتیب و تدوین کی کوئی باقاعدہ اور منضبط شکل نہ تھی اور جس کا اوّلین سبب بھی جوش کی طبیعت کا اپنے کلام کی نسبت لاابالی پَن تھا۔ پاکستان میں اُن کی زیست کے بقیہ اور اگلے ستائیس برس پھولوں کے بستر کے بجائے کانٹوں کی سیج ثابت ہوئے۔ ایک کے بعد ایک الُجھن۔
سب سےپہلےاخبارات میں اُن کے خلاف ایک منظّم مہم، پھر اسلام پسند جماعتوں کی طرف سے لعن طعن کا دراز ہوتا ہواسلسلہ، روزگار کی طرف سے پیہم پریشانیاں۔ یوں مختلف محاذوں پر پےدرپے معرکہ آرائیاں، تاہم تخلیقی سفررُکا اور تھما نہیں۔ بھارت سے پاکستان تک جوش کی زندگی کا سفرکچھ یوں رہا۔ ہندوستان میں بکھرے مجموعہ کلام، کسی کا محض ایک ایڈیشن، کوئی سرے سےغائب، ہندوستان کی تقسیم، ہجرت، پاکستان کے ادبی منظرنامے کی مشکلات، روزگار کے مسائل۔
1964ء کے آس پاس ڈاکٹر ہلال کی جوش سے ملاقاتوں کی ابتدا ہوئی۔ یہ ڈاکٹر ہلال کا دورِ طالب علمی تھا، جس میں وہ کالج کے اختتام پر مجتبیٰ حسین کے ساتھ جوش کی قیام گاہ جاتے اوروہاں ہونےوالی گفتگوسے لُطف اندوز ہوتے۔ پھر یوں ہوا کہ مجتبیٰ حسین کی عدم موجودگی میں بھی ڈاکٹر ہلال نے جوش سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ صحبتیں قُربتوں میں ڈھلیں اور ڈاکٹر ہلال نے جوش کی تخلیقات کو دھیرے دھیرے مُرتّب کرنا شروع کیا۔
یہی وہ زمانہ بھی تھا کہ اپنے کلام پر جوش سے اصلاح لینے کا عمل بھی شروع ہوا۔ جوش کے انتقال کے بعد ڈاکٹر ہلال نے جوش کے تخلیقی کام کی تحقیق میں دن رات ایک کر دیئے۔ ایک کے بعد ایک تحقیق اور یوں رفتہ رفتہ ناقدینِ ادب کے نزدیک وہ جوش ملیح آبادی پر کسی بھی عنوان سے تحقیق کے لیے سند قرار پائے۔ یہ سب تو ہوا، تاہم، ’’کُلیّاتِ جوش‘‘ کا تصوّربظاہرکارِمحال نظر آتا تھا۔
ایسی ادبی فضا کہ جہاں جوش کے اکثر مجموعۂ کلام کا اتا پتا ہی نہ ہو، کُلیّات جوشؔ کی اشاعت کسی دیوانے کی بڑسے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ صحت کے مسائل تو کافی زمانے سے لاحق تھے، تاہم 2007 ء کے بعد سے بیماری شدّت اختیار کرنے لگی۔ ابھی وہ اپنی ہی طویل عرصے سے لاحق شدید بیماری سے نبرد آزما تھے کہ اُن کی اہلیہ اچانک انتقال کر گئیں اور یوں گھرکا شیرازہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔
یہ ڈاکٹر ہلال کے لیے بالکل ویسی ہی حوصلہ شکن صورت تھی، جیسی ترکِ وطن کے وقت جوش کی۔ ڈاکٹر ہلال کے لیے بھی حالات بالکل ویسے ہی پھولوں کے بستر کے بجائے کانٹوں کی سیج ثابت ہوئے، جیسے جوش کے لیے تھے، تاہم اُنہوں نے بھی جوش کی طرح آہنی عزم اور روایتی دل جمعی سے کام جاری رکھا۔
جوش کے کم یاب شعری نسخوں تک رسائی، انُ کے مختلف مجموعہ ہائے کلام کے ایک ایک لفظ کو باریک بینی سے دیکھنا، جگہ جگہ تحقیقی اور وضاحتی نوٹ دینا، کلام کا اشاریہ تیار کرنا، کسی اکیلے اور وہ بھی شدید علیل انسان کےبس سے بظاہر باہر کا کام تھا اور ہر لحاظ سے ایک بھاری پتھر تھا۔ تاہم، ڈاکٹر ہلال نے اُسے محض چُوم کر نہیں چھوڑا، بلکہ اُٹھا کر دکھا دیا۔ ’’کُلیّاتِ جوشؔ‘‘ کے کارِسخت کوشی کو انجام دیتے ہوئے نہ اُنہوں نے بیماری کو راہ میں حائل ہونے دیا اور نہ اُن کی مدیرانہ بصیرت نے اُنہیں کہیں دھوکا دیا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ ’’جوشؔ صاحب سے یہاں چوک ہوگئی کہ اُنہوں نے اِس کا سنِ اشاعت1921 ء یا 1922ء بتایا، لیکن رُوحِ ادب کے دوسرے ایڈیشن ( 1942ء، لاہور) میں خُود ہی اس کی تصحیح بھی کردی اور1920 ء ہی کو سالِ طبع بھی قرار دیا۔ ڈاکٹر ہلال نے ’’کمیاں اگلے ایڈیشن میں پوری ہوتی رہیں گی۔‘‘
والا رویہ نہیں اپنایا، کیوں کہ اُن کے یہاں ’’کمیاں‘‘ تلاش کرنا کسی کارِ دُشوار سے کم نہیں۔ کُلّیات میں ذہانت سے تحریر کیے گئے ’’تحقیقی نوٹ‘‘ اورحاشیے میں حد درجہ محنت اورلیاقت سے ترتیب پائے گئے وضاحتی نُکتے مختلف مقامات پر آپ کی نظروں کے منتظرہوں گے اور جنہیں پڑھتے ہوئے آپ شاید یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ کُلیات کے تدوین کار نے جوش کی شخصیت کو جیسا عُمق نگہی سےدیکھا ہے، مشکل ہی ہے کہ کوئی اور ویسا دیکھ سکے۔
کُلّیات کی جِلد اوّل کے صفحات کی تعداد 880 ہے۔ جِلد دوم 881 تا 1656 اور جِلد سوم 1657 تا 2512 پر مشتمل ہے۔ تین ضخیم جِلدوں پر مشتمل اس تخلیقی سرمائے پر نظر ڈالنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جوش نے کائنات اور اُس سے وابستہ موضوعات کے بحرِ بےکنار کو کھنگالنے کا دشوار ترین کام اپنے تخلیقی اعجاز کی بدولت بہت آسانی سے انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر ہلال نے جوش کی کلیات مرتّب کرکے نقّادانِ سُخن کو متوجّہ کیا ہے کہ وہ جوش کی شاعری کے ارتقائی ادَوار کو ذہن میں رکھ کر اُن کے مقام و مرتبے کا تعیّن کریں۔
ڈاکٹر ہلال کے حیران کُن ادبی کارناموں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اُن کا سینہ تحقیق کاجواربھاٹا ہے۔ ’’کُلّیاتِ جوشؔ‘‘ کا یہ ادبی کارنامہ ارُدو ادبیات کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جب کہ ویلکم بُک پورٹ بھی اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں خصوصی مبارک باد کی مستحق ہے۔