اسلام آباد ( مہتاب حیدر) عالمی بینک نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ذاتی آمدن ٹیکس کو تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقات کےلیے برابر بنائے اور جنرل سیلز ٹیکس کے نظام میں موجود خرابیان دور کرے اور تمباکو کی صنعت کو ایک ہی پریمیم شرح پر ٹیکس وصول کیاجائے جبکہ پائیڈ کے وی سی ڈاکٹر ندیم الحق نے کہا ہے کہ اصلاحاتی ایجنڈا صرف ٹیکس، ٹیکس اور ٹیکس نہیں ہے۔ کہ پاکستانی ٹیکس میں فریب دہی کرنے والے نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ نوآبادیاتی ادارےعجیب و غریب قوانین کے ذریعے اپنے ناجائز اقتدار کو تسلسل دیے جارہے ہیں یہ قوانین بنیادی طورپر منڈیوں کو ہموار طریقے سے اپنا کام کرنے ہی نہیں دیتے۔
عالمی بینک نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ہر قسم کے ریگولیٹرز کو ایک ہی بڑے ادارے کے اندر لایاجائے اور ایک مرکزی نظام کے تحت لایاجائے تاکہ مرکز اور صوبوں کے مابین رابطہ کاری بہتر ہوسکے بجائے اس کے کہ اسے ٹکڑوں میں بانٹنے کا طریقہ کار اپنایاجائے۔
’’ فوری اصلاحاتی ایجنڈا: آئی ایم ایف سے آگے‘‘ کے نام سےہونے والی کانفرنس کے شرکا کے ساتھ شیئر کیے جانے والے عالمی بینک کے تخمینے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فی الوقت مجموعی قومی پیداوار میں جنرل سیلز ٹیکس کا کل حصہ 2.7 فیصد ہے اور اگر تمام اقسام کے کم کئے گئے ٹیکس اور استثنیٰ اور دیگر تر غیبات ختم کر دی جائین تو اس میں مجموعی قومی پیداوار کا 6.53 فیصد بننے کی صلاحیت موجود ہے۔
ورلڈ بینک نے یہ تجویز بھی دی کہ تمباکو پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی ایک ہی پریمیم شرح متعارف کرائی جائے اور اس سے مجموعی قومی پیداوار میں تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا حصہ 0.19 فیصد سے بڑھ کر 1.09 فیصد ہوجائے گا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکس کلیکشن 1000 ارب سے بڑھ سکتا ہے۔