کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں منعقدہ اہم اجلاس میں کہا گیا کہ منظم انداز میں ہونے والے جرائم کو بااثر سیاسی شخصیات ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور علاقہ پولیس کی سرپرستی حاصل ہے، ڈکیتوں اور قاتلوں کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہے اسی وجہ سے صوبے میں ہائی ویز اور شہریوں سے دن دیہاڑے وارداتیں ہو رہی ہیں، کچے کے ڈاکوؤں کو فرضی کارروائیوں سے قابو نہیں کیا جا سکتا، شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پولیس و رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے،سیف سٹی منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کا حکم دیدیا۔ صوبے میں امن و امان سے متعلق ہونے والے ایک ماہ قبل اجلاس کی روداد سامنے آگئی۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ امن و امان کیلئے ہونے والے اہم اجلاس کی روداد سامنے آگئی ہے۔ صوبہ سندھ میں امن وامان، اسٹریٹ کرائمز اور سیف سٹی منصوبے میں تاخیر سے متعلق چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی سربراہی میں ہونے والی صوبائی کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی سامنے آگئی۔ اجلاس میں آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون، صوبے بھر کے ڈی آئی جیز و دیگر نے شرکت کی۔ سکھر اور لاڑکانہ میں ڈکیتی، اغوا برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اجلاس میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں کراچی میں اسٹریٹ کرائمز اور لوٹ مار کے واقعات بھی زیر غور لائے گئے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے امن و امان اور اسٹریٹ کرائمز پر اظہار تشویش کیا۔ اجلاس آبزرو کیا گیا کہ منظم جرائم میں بااثر سیاسی شخصیات، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور علاقہ پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ اغوا کاروں کی جانب سے مغویوں پر تشدد کی ویڈیوز بھی سماجی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ ڈکیتوں اور قاتلوں کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہے، لہٰذا صوبے بھر کے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ کچے کے ڈاکوؤں کو فرضی کاروائیوں کے ذریعے قابو نہیں کیا جاسکتا ہے اس وجہ سے ہائی ویز اور شہریوں میں دن دیہاڑے ایسی وارداتیں ہوتی ہیں۔ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پولیس، رینجرز اور دیگر ریاستی اداروں کی ہے۔ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کہ کشمور، کندھ کوٹ، شکار پور، جیکب آباد اور گھوٹکی بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے اقلیتوں کو اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سینئر جج نے استفسار کیا کہ کچے کے ڈاکوں کے پاس جدید اسلحہ کیسا پہنچا؟ آئی جی سندھ نے کہا کہ کچے کے علاقے میں دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مؤثر کارروائیاں کی ہیں۔ کچے کے مختلف علاقوں میں پولیس پکٹس میں اضافہ کیا ہے جس سے وارداتوں میں کمی ہوئی ہے۔ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیاروں کی وجہ سے پولیس کا بھی بھاری نقصان ہوا ہے۔ ڈی جی رینجرز بریفگ دیتے ہوئے کہا کہ کراچی کے علاوہ دیگر اضلاع میں 15 سو رینجرز اہلکار تعینات ہیں۔ کراچی میں رینجرز کے 11 ہزار اہلکار تعینات ہیں جو پولیس کی معاونت کرتے ہیں۔ رینجرز کے پاس صوبے میں پولیسنگ کے اختیارات نہیں ہیں۔ ضرورت پڑنے پر پولیس کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ رینجرز کی چیک پوسٹ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر بنائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کہ پولیس پیٹرولنگ، پولیس پکٹس میں اضافہ، نیشنل ہائی ویز سے اسپیڈ بریکرز ختم کیے جائیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان رابطے کے فقدان کو ختم کیا جائے۔ جرائم پیشہ افراد کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ مفرور ملزمان کے ڈیٹا نادرا سے لنک کر کے شناختی کارڈ بلاک کئے جائیں۔ پی ٹی اے موبائل فونز سمز جاری کرنے کے طریقہ کار کا بغور جائزہ لے۔ ایس ایس پی اور علاقہ ایس ایچ او کسی بھی واقعے کے ذمہ دار ہوں گے۔ کسی بھی پولیس افسر کا مقررہ مدت سے پہلے تبادلہ نا کیا جائے۔ اسٹریٹ کریمنلز، غیر قانونی اسلحہ فراہم کرنے والے گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ چوری شدہ اشیا کی خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ شارٹ ٹرم کڈنپینگ میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کاروائی کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔ صوبے کے متاثرہ علاقوں میں قابل پولیس افسران کو تعینات کیا جائے۔ سیکرٹری محکمہ داخلہ نے کہا کہ سیف سٹی پروجیکٹ 5 مراحل میں مکمل ہوگا۔ سیف سٹی منصوبے کا پہلا مراحلہ 2 سال میں مکمل ہوگا۔ پہلے مرحلے میں اہم شاہراوں اور پوش علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے۔