ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کا تجزیہ کرتے ہوئے ترک میڈیا نے کئی غیرمعمولی باتوں کی نشاندہی کی ہے۔
تجزیے میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ آخر ایرانی صدر نے تیس برس پرانا امریکی ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کیا اور یہ بھی کہ مسافروں کی ترتیب کیوں تبدیل کی گئی۔
روسی میڈیا نے ترکیے اخبار کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران کے صدر اپنے دوروں میں عام طور پر روسی ساختہ ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے تاہم تبریز جانے کے لیے امریکی ساختہ بیل 212 Bell ہیلی کاپٹر چنا گیا۔
یہ بھی کہ صدر کے لیے پائلٹ کا چناؤ ماضی میں پاسداران انقلاب کے اہلکاروں میں سے کیا جاتا تھا تاہم اس بار انکے پائلٹ کا تعلق آرمی سے تھا۔
صدر کے ہیلی کاپٹر میں تین مختلف ٹریکنگ نظام نصب تھے جن میں جی پی آر ایس اور ٹرانسپونڈرز بھی شامل تھے مگر اسکے باوجود حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر کے مقام کا فوری تعین نہیں کیا جاسکا۔
ترک حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ ہیلی کاپٹر کے سگنل نوٹ نہیں کرسکے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو یہ نظام بند تھا یا موجود ہی نہیں تھا۔
ایرانی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ پرواز سے کچھ ہی دیر پہلے مسافروں کی ترتیب بھی بدلی گئی تھی۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور تبریز کے گورنر مالک رحمتی کو ہیلی کاپٹر نمبر دو میں سفر کرنا تھا مگر آخری لمحے تبریز کے پیش امام محمد آل ہاشم کو بھی اتار دیا گیا۔
وزیر خارجہ، گورنر اور پیش امام تینوں ہی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر میں تھے اور حادثے میں انکے ساتھ ہی جاں بحق ہوئے۔
ایرانی حکام کے مطابق ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کے سبب حادثہ کا شکار ہوا۔