تحریر: ایم اسلم چغتائی… لندن روز اول سے ہی انسان کی انسان کے ساتھ جنگ اور لڑائی ہو رہی ہے کبھی یہ لڑائی دو افراد کے درمیان تو کبھی کئی افراد کے درمیان ہوتی ہے کبھی گھروں میں تو کبھی محلوں کے درمیان لڑائی دیکھنے کو ملتی ہے کبھی دو ممالک تو کبھی کئی ممالک کے مابین جنگ شروع ہو جاتی ہے جیسے عالمی جنگ کہا جاتا ہے۔انسانی تاریخ میں دو بڑی عالمی جنگیں ہوئی ہیں جو پچھلی بیسویں صدی میں ہوئیں پہلی عالمی جنگ جولائی 1914سے لے کر نومبر 1918تک جاری رہی جو چار سال سے زائد عرصہ جاری رہی۔ دوسری عالمی جنگ ستمبر 1939سے 2 ستمبر 1945چھ سال تک جاری رہی جو تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہولناک جنگ تھی جس میں پہلی بار ایٹم بم کا استعمال کیا گیا اور اس جنگ کے مہلک اثرات آج تک جاری ہیں۔ لاکھوں افراد قتل عام بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہوئے ۔ اس جنگ کی ابتدا الفرڈ ہٹلر کے ماتحت نازی جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی، اس جنگ سے یورپ تباہ و برباد ہو گیا۔اگر دیکھا جائے تو بیسویں صدی کی دوسری جنگ عظیم کے بعد مختلف ممالک کے درمیان محدود پیمانے پر جنگیں جاری ہیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد 1948 یورپ اور امریکہ نے مل کر مشرق وسطیٰ میں یہودی ریاست اسرائیل کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس میں ان سب کا اپنا مفاد تھا۔ اسرائیل کے ذریعے یہ مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک پر اپنا اثرورسوخ اور کنٹرول رکھنا چاہتے تھے جس میں ان کو کامیابی ملی۔ امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک اسرائیل کی ہر طرح سے مالی اور دفاعی امداد کرتے رہتے ہیں۔ آج ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل اور صرف ایک کروڑ سے زائد آبادی والا ملک پچاس اسلامی اور ڈیڑھ ارب آبادی والے ممالک پر بھاری ہے۔ آج اسرائیل فلسطینیوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھا رہا ہے مگر ماسوائے ایک اسلامی ملک ایران کے کوئی اور ایک اسلامی ملک بھی اسرائیل کے سامنے کھڑا نہیں ہوا۔اسرائیل کے قیام کے بعد سے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان متعدد جنگیں ہوئی ہیں جن میں 1948کی جنگ اس کے بعد پچاس کی دہائی میں سوئز کنال کا بحران 1967کی عرب اسرائیل کی چھ روزہ بڑی جنگ ہوئی اس جنگ میں مصر، اردن، شام، اور عراق اسرائیل کے ساتھ لڑے اس جنگ نے مشرق وسطیٰ کا نقشہ ہی بدل دیا جس کی وجہ سے آج تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد 1973 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی جو 19 روز جاری رہی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی جنگیں 1965 اور 1971 میں ہوئیں دو اسلامی ممالک عراق اور ایران کے درمیان 22 ستمبر 1980 سے لیکر 20 اگست 1988 تک طویل جنگ ہوتی رہی، دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کے درمیان تو شروع سے ہی سرد جنگ جاری ہے۔ امریکہ اور ویت نام کی جنگ نومبر 1955 سے لیکر اپریل 1975 تک بیس سال جاری رہی، دہشت گردی کے نام پر امریکہ نے افغانستان جیسے غریب ملک پر اکتوبر 2001 میں چڑھائی کردی اور یہ جنگ بھی بیس سال اگست 2021 تک جاری رہی اسی طرح جمہوریت اور انسانی حقوق کا نام لے کر امریکہ عراق میں داخل ہوا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔روس نے بھی افغانستان جیسے ملک سے ٹکر لی اور 24 دسمبر 1979 سے لیکر 15 فروری 1989 تک افغانستان سے لڑتا رہا اور ناکام ہوکر واپس لوٹا۔ شام جیسے پرامن ملک میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جنگ چھیڑی اور یہ ملک بھی تباہ و برباد ہوگیا ہزاروں افراد کو ملک چھوڑنا پڑا، روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ 22 فروری 2022 کو شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پچھلے سال اکتوبر میں لڑائی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے اس جنگ میں اسرائیل کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اس ہولناک جنگ میں 35ہزار فلسطینی ہلاک کر دیئے گئے ہیں اور اسرائیل 10 ہزار حماس کے جنگجوؤں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ اور پرامن ممالک بھی اس جنگ کو ختم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اوراسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے جنگ بندی پر راضی نہیں ہو رہا۔اسی سال اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا جس میں ہلاکتیں اور مالی نقصان ہوا اسکا بدلہ لینے کے لئے ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اور سینکڑوں کروز میزائل ، ڈرون اسرائیل پر چھوڑے جس سے دنیا ہل کر رہ گئی اور یہ تصادم کسی بڑی جنگ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے اور عالمی جنگ بھی چھڑ سکتی تھی مگرکچھ ممالک چین، روس ، ترکی کی کوششوں سے فی الحال حالات پر قابو پالیا گیا ہے۔جیسا راقم نے شروع میں تحریر کیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مختلف ممالک کے درمیان لڑائیاں جاری ہیں اور اکثر لڑائیوں میں دنیا کا ’’پولیس مین‘‘ امریکہ اور اس کے اتحادی شامل ہوتے ہیں ۔ روس کو یورپ اور امریکہ نے مل کر سیاسی اور اقتصادی طور پر کمزور کر دیا جس کی وجہ سے امریکہ اور روس کے درمیان طاقت کا توازن خراب ہوا اور امریکہ اپنی من مانی کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے پر اثرانداز ہوتا ہے جس سے دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعدامریکہ اور یورپ آپس میں نہیں لڑتے مگراپنی چالوں سے دوسرے ممالک اورکمزور ممالک کو آپس میں لڑاتے ہیں اور اپنا اسلحہ بیچ کر دولت کماتے ہیں۔ دنیا میں آج آٹھ ممالک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ مئی 2023 کے سروے کے مطابق ایٹمی ممالک کے پاس 13 ہزار ایٹمی ہتھیار موجودہیں جن کا 90% فی صد حصہ صرف امریکہ اور روس کے پاس ہےاور باقی 10 فی صد حصہ برطانیہ ، چین، بھارت، شمالی کوریا اور پاکستان جیسے ایٹمی ممالک کے پاس ہے۔ اتنی کثیرتعداد میں ایٹمی ہتھیار اور اسلحہ فقط نمائش کے لئے تو نہیں اکھٹا کیا گیا، یہ اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار انسان نے انسانیت کی تباہی و بربادی کے لئے ہی تو اکھٹا کیا ہے۔ اگر خدانخواستہ وسیع پیمانے پر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے (جس کے خطرات ہر وقت موجود ہیں) تو یہ کرہ ارض اور انسانیت کی مکمل تباہی و بربادی ہو سکتی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے دنیا بھر کے دانشور سیاستدان اور انسانیت سے محبت کرنے والے دنیا کے ممالک مل کر ایٹمی اسلحہ اور ہتھیاروں کو کم کرنے اور تلف کرنےکا سوچیں ۔ اربوں ڈالرز جو اسلحہ بنانے اورخریدنے پر صرف ہوتے ہیں وہ رقم انسانیت کی خدمت بھلائی کرنے اس کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہیوں اور آنے والی تباہیوں سے بچانے اور دنیا سے غربت جہالت اور بیماریوں کو ختم کرنے پر صرف کی جائے جس سے یہ دنیا ایک جنت بن سکتی ہے۔